بجلی کی فی یونٹ قیمت میں سوا تین روپے کا نیا اضافہ کیا ہے

وفاقی حکومت نے ایک بار پھر اپنی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کا بوجھ براہِ راست عوام کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ حکومت نے آئندہ 6 سال کیلئے بجلی کی قیمت میں سو اتین روپے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کر لیا۔ ناقدین کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ساڑھے تین روپے کا اضافہ دراصل عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ حکومتی فیصلہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ حکومت بجلی کے بحران، لائن لاسز اور چوری پر قابو پانے کی بجائے اپنی بدانتظامی اور کرپشن کا خمیازہ عوام سے وصول کرنے کی خواہاں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں بجلی صارفین سے بلوں میں متعدد دیگر ٹیکسز کے ساتھ ساتھ گذشتہ کچھ عرصے سے گردشی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے فی یونٹ تین روپے 23 پیسے ڈیٹ سروس سرچارج کے نام پر وصول کئے جا رہے تھے۔اس سرچارج کی مدت جولائی 2025 تک ختم ہونا تھی مگر اب حکومت نے اس مدت کو بڑھا کر عائد کردہ ٹیکس آئندہ چھ برس تک وصول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومتی فیصلے کے بعد بجلی کے بلوں میں کمی کی بجائے مزید 6سال تک عوام کو حکومتی نااہلی کا جرمانہ برداشت کرنا پڑے گا جبکہ بعض ماہرین نے اس سرچارج میں مزید اضافے کے خدشے کا بھی اظہار کر دیا ہے۔ جس سے آنے والے دنوں میں بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان موجود ہے۔
تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عام صارفین ہر ماہ باقاعدگی سے بل کی ادائیگی کرتے ہیں تو یہ گردشی قرضہ کیسے بن جاتا ہے؟اس گردشی قرضے کا جرمانہ تمام بجلی صارفین سے بلاتفریق کیوں وصول کیا جاتا ہے؟ یہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ آخر ہوتا کیا ہے؟ ماہرین کے مطابق گردشی قرضہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صارفین سے پوری وصولی نہ ہو یا حکومت سبسڈی کی وجہ سے اصل لاگت ادا نہ کرے۔ اس کے نتیجے میں تقسیم کار کمپنیاں بجلی پیدا کرنے اور تیل و گیس فراہم کرنے والے اداروں کو ادائیگی نہیں کر پاتیں۔ یوں یہ قرض کا سلسلہ پورے نظام میں پھیل کر پیداوار کو متاثر کرتا ہے لوڈشیڈنگ اور بجلی کے نرخ بڑھتے ہیں اور حکومت کی جانب سے عوام پر سرچارج عائد کئے جاتے ہیں۔ یعنی سادہ لفظوں میں گردشی قرضہ حکومتی نااہلی اور بد اتنظامی کا غماز ہوتا ہے جس کا خمیازہ عوام کو باری ٹیکسز کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ حالیہ حکومتی فیصلے کے بعد بجلی کے بلوں پر عائد سوا تین روپے سرچارج کی مدت مزید 6سال تک بڑھا دی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومتی فیصلے کے بعد آنے والے دنوں میں بجلی صارفین کو کسی قسم کا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بلکہ امکان ہے کہ فی یونٹ تین روپے 23 پیسے سرچارج مزید بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’صارفین بجلی کے بلوں میں عائد ڈیٹ سروس سرچارج اب تک سود کی مد میں ادا کر رہے تھے، لہٰذا یا تو اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا یا کم از کم اس میں کمی آتی۔ لیکن موجودہ پالیسی کے تحت یہ سلسلہ آئندہ 6سال تک جاری رہے گا اور اگر بجلی کی طلب یا پیداوار میں کمی آتی ہے تو اس چارج میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کے اس فیصلے سے بجلی کمپنیوں کو تو وقتی ریلیف مل سکتا ہے، لیکن جب تک لائن لاسز، بجلی چوری اور انتظامی نااہلیوں کو کم نہیں کیا جاتا، بجلی سستی ہونا ممکن نہیں۔ اس لیے صارفین کو اس اقدام سے براہِ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘
بعض دیگر ماہرین کے بقول ’تین روپے 23 پیسے فی یونٹ سرچارج جو رواں برس جولائی میں ختم ہونا چاہیے تھا، حکومت کے نئے فیصلے کے بعد اب آئندہ چھ برس تک صارفین کو ادا کرنا پڑے گا۔‘ جس کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں بجلی کے بھاری بلوں کا بوجھ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔‘حکومتی فیصلے سے بجلی کمپنیوں کو ریلیف ضرور ملے گا لیکن صرف سرچارجز عائد کرنے یا بینکوں سے قرض لینے سے بجلی کا گردشی قرضہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا ضروری ہے۔‘
