افغان طالبان نے TTP کا نیٹ ورک محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا

افغان طالبان نے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو پٹہ ڈالنے کی بجائے انھیں پاک افغان سرحد سے ملک کے دیگر محفوظ علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ پاکستان کے تحفظات اور اعتراضات کا ازالہ کیا جا سکے۔ تاہم مبصرین کے مطابق امریکی انخلا کے بعد جدید ترین  اسلحہ شرپسندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے جس کے بعد ٹی ٹی پی سے منسلک دہشتگرد جہاں پاکستان کیلئے خطرہ بن چکے ہیں وہیں افغان طالبان کیلئے بھی ان پر  قابو پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق افغانستان میں قائم طالبان حکومت نے پاکستان کی بڑھتی ناراضی کے پیش نظر سرحدی علاقے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے کیمپ ختم کر رہی ہے تاہم ان پر شکنجہ کسنے  اور شرپسندانہ کارروائیوں سے باز رکھنے کی بجائے انھیں ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے کابل کے اس اقدام کو انتہائی ناکافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

 

سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان کے دیرینہ خدشات کے پیش نظر طالبان کا حالیہ اقدام انتہائی ناکافی ہے کیونکہ سرحدی علاقے سے منتقل کئے جانے والے افراد میں زیادہ تر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خاندان کے لوگ ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہیں جبکہ شرپسند طالبان کے خفیہ کیمپ اب بھی سرحدی علاقے میں موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی طالبان حکومت نے ایسے ہی اقدامات کئے جن سے خاص فرق نہیں پڑا تھا، کیونکہ اس وقت بھی ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی بجائےصرف ٹی ٹی پی کے فیملی ارکان منتقل کیے گئے تھے اب بھی طالبان حکومت پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے اسی طریقہ کار پر عمل دہرا رہی ہے۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ بعض اندازوں کے مطابق افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی تعداد6 سے 8 ہزار کے درمیان ہے، ان کے خاندانوں کے 20 ہزار کے لگ بھگ ارکان بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں، ان میں چند سو افراد کی منتقلی پاکستان کے مطالبے کا جواب نہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ سرحدی علاقوں سے ٹی ٹی پی کی منتقلی کی تجویز افغان طالبان کی طرف سے آئی کیونکہ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کا اظہار کیا تھا۔ تاہم اس تجویز پر پاکستان نے ہمیشہ شک و شبہ کا اظہار کیا کیونکہ طالبان اس بات کی ٹھوس ضمانت دینے کیلئے تیار نہیں تھے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کیلئے خطرہ نہیں بنے گی۔ ادھر ذرائع نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ارکان کی منتقلی کی خبر پاکستان کے سرحد پار فضائی حملوں کے کچھ ہفتے کے بعد آئی ہے۔ تاہم پاکستان نے افغان طالبان کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ ملک میں کسی سرحد پار دراندازی کو قطعا قبول نہیں کرے گا اور کسی بھی سرحد پار جارحیت کو ماضی کی طرح منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

 

مبصرین کے مطابق ملک میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی اور بین الاقوامی افواج جو جدید خودکار اسلحہ چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے جس سے پاکستان کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔ماضی قریب میں صوبہ خیبر پختونخوا، خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے بعد یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس میں امریکی ساختہ اسلحہ استعمال ہوا۔

 

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں لگنے پر پہلی مرتبہ کھلے عام بات 2023 میں اس کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کی۔اگرچہ اس سے قبل بھی اس بارے میں باتیں ہوتی رہیں لیکن انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید خودکار اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے خطے کے امن کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے ان کی پاکستان کے خلاف لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے

پیپلز پارٹی مخالف میڈیا کا صدر زرداری سے گلہ جائز کیوں نہیں؟

 

 

خیال رہے کہ افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے لگ بھگ دو دہائی تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہاں سے فوری انخلا کا فیصلہ کیا اور اس دوران وہ بھاری مقدار میں اسلحہ چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔پاکستان اس معاملے میں اگرچہ امریکہ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا البتہ یہ ضرور کہا جاتا رہا ہے کہ اس معاملے میں مربوط تعاون اور انتظام کی ضرورت تھی۔

 

واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروں کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں تیزی آئی ہے۔ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں بتدریج تلخی آئی ہے اور اس کی بڑی وجہ پاکستان میں شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملے ہیں۔

 

پاکستانی حکومت تواتر سے افغان طالبان سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو لگام ڈالیں تاکہ وہ پاکستانی میں تخریب کاری سے باز آ جائیں۔اگرچہ طالبان اس بات کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں لیکن شاید پوری طرح ایسے حملوں کو روکنا ان کے بس کی بات بھی نہیں کیوں وہاں موجود ٹی ٹی پی سمیت دیگر عسکریت پسند گروپوں کو مقامی آبادی کی حمایت تو حاصل ہے ہی لیکن ساتھ ہی اب ان کے پاس ایسے ہتھیار اور وسائل بھی آ گئے ہیں کہ انہیں روکنا یا ان سے نمٹنا آسان نہیں۔ان حالات میں عسکریت پسندوں کی عددی طاقت ہی نہیں بلکہ ان کے زیراستعمال جدید اسلحہ بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چیلنج بن چکا ہے۔

Back to top button