کیا مریم نواز حکومت کے ایما پر جعلی پولیس مقابلے جائز ہیں؟

 

 

 

معروف کالم نگار اور لکھاری یاسر پیرزادہ نے کہا ہے کہ صوبہ پنجاب میں مریم حکومت کے ایما پر عدالتی کارروائی کے بغیر ہی جعلی پولیس مقابلوں میں ملزمان کی بڑھتی ہوئی اموات کا راستہ غلط ہے اور اسے فوری طور پر ترک کر دینا چاہیے۔ انکا کہنا ہے کہ جب آپ جعلی پولیس مقابلوں کو بڑھاوا دیتے ہیں، تو چاہے آپ کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو، اس کا نتیجہ خوفناک نکلتا ہے۔ صرف ایک ناجائز قتل پولیس کو ہیرو سے ولن بنا دیتا ہے۔ وہی لوگ جو پہلے بدنام زمانہ قاتل نتھو گورایا کے قتل پر پھولوں کے ہار پہنا رہے ہوتے ہیں، وہ نقیب اللہ محسود جیسے بے گناہ کو مارنے پر راؤ انوار کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ لہذا جس دن پنجاب میں کوئی اور بے گناہ جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا یا ایسے کسی مقابلے کی ویڈیو وائرل ہو گئی اُس روز مریم نواز کی جانب سے’سستے اور فوری انصاف‘ کی فراہمی کا یہ نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ یہ پہلے بھی ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا، یا تو جعلی پولیس مقابلوں سے باز آ جائیں یا پھر وقت کا انتظار کیجیے۔

 

یاسر پیرزادہ روزنامہ جنگ میں اپنی تحریر میں بتاتے ہیں کہ ایک پوش علاقے میں واقع گھر میں چند مسلح ڈاکو داخل ہوتے ہیں، بندوق کی نوک پر اہل خانہ کو یرغمال بناتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں اور واپس جانے لگتے ہیں۔ مگر ایک ڈاکو رُک جاتا ہے، وہ گھر کے سربراہ کی بیٹی کو بالوں سےپکڑ کر گھسیٹتا ہے اور اسے سب کے سامنے ریپ کر دیتا ہے، باقی ڈاکو اُس کی ویڈیو بناتے ہیں اور بے بس گھر والوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ اگر پولیس کو شکایت کی تو ویڈیو وائرل کر دیں گے۔ اِس شیطانی واردات کے بعد وہ فرار ہو جاتے ہیں۔ پولیس آتی ہے، ایف آئی آر کاٹتی ہے مگر اُس بد نصیب گھرانے کو اچھی طرح پتا ہے کہ اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اوّل تو ڈاکو پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر پکڑے بھی گئے تو انہیں سزا دلانے کا ایک طویل اور اذیت ناک عمل ہو گا جس کو منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا، اور اِس دوران یہ بھی ممکن ہے کہ ڈاکوؤں کے ساتھی اُس گھرانے کی لڑکی کی ویڈیو لِیک کر دیں۔

 

لیکن پھر ایک حیرت انگیز واقعہ ہوتا ہے، چند روز بعد اُس گھر کے سربراہ کو تھانے سے فون آتا ہے کہ وہ آکر ڈاکوؤں کی شناخت کر لے، وہ تھانے جا کر شناخت کرتا ہے، تمام ڈاکو پولیس کی تحویل میں ہوتے ہیں اور اُن میں وہ خبیث بھی ہوتا ہے جس نے اُس کی لڑکی کا ریپ کیا تھا۔ تھانیدار اُس کے باپ کو تسلی دیتا ہے کہ اب آپ گھر جائیں اور اطمینان رکھیں، انصاف ہوجائے گا۔ رات گئے اُسے تھانے سے دوبارہ اطلاع ملتی ہے کہ تمام ڈاکو پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ انصاف کی فراہمی کے اِس عمل میں سات دن لگتے ہیں۔

 

یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ اِس قسم کی خبریں ماضی میں اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ خدانخواستہ اگر کسی شخص کے گھر میں یہ اندوہناک واقعہ پیش آجائے تو وہ یہی کہے گا کہ اِن بھیڑیوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے اڑا دو اور اِن کی لاشیں کتّوں کے آگے ڈال دو، جہنم میں گیا قانون۔ یہ بحث پاکستان میں نئی نہیں۔ جس زمانے میں میں دی نیشن میں کرائم رپورٹر ہوا کرتا تھا اُس وقت بھی ہم نیوز روم میں یہی گفتگو کرتے تھے، اُن دنوں بھی جعلی پولیس مقابلے عام تھے جنکے نتیجے میں پولیس ’فوری اور سستا انصاف‘ فراہم کرتی تھی۔ جس طرح دنیا میں بہت سی پرانی بحثیں سمیٹ دی گئی ہیں اسی طرح مہذب ممالک میں اب اِسکا تصور نہیں کہ کسی کو پولیس مقابلے میں مار دیا جائے چاہے اُس کا جُرم کچھ بھی ہو۔  لیکن ایسا کرنے سے ریاستی اہلکاروں اور ڈاکوؤں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا، دونوں طاقت کا ناجائز استعمال ہی تو کرتے ہیں۔ قانون کی رُو سے، ہر فرد کے پاس، بشمول اُس کے جس نے لڑکی کا ریپ کیا ہو، عدالت میں اپنے دفاع کا ناقابل تنسیخ حق ہے۔ اگر ریاست ہی ماورائے عدالت قتل کی مرتکب ہوگی تو پھر قانون کا پورا تانا بانا ہی بکھر جائیگا جسکے تحفظ کی ریاست نے قسم اٹھائی ہوتی ہے۔

 

یاسر پیرزادہ کے بقول دراصل اِس پوری بحث میں اُس وقت جذباتی نقطہ نظر حاوی ہو جاتا ہے جب کوئی شخص یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ ریاست کا حتمی مقصد بہرحال اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہے اور اسے یقینی بنانے کیلئے اگر کوئی ماورائے قانون اقدام کرنا بھی پڑے تو کوئی حرج نہیں، یعنی بعض اوقات حاکموں کو کچھ ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو اخلاقی طور پر درست نہیں ہوتے مگر عوام کے وسیع تر مفاد میں انہیں کرنا مجبوری بن جاتا ہے، جیسے ریپ کرنے والے شیطان کو جعلی پولیس مقابلے میں مارنا! بظاہر یہ خوش کُن بات ہے مگر حقیقت میں یہ وہی دلیل ہے جو ہر طالع آزما ملک میں مارشل لا نافذ کرتے ہوئے استعمال کرتا ہے کہ چونکہ ملک کا انتظام و انصرام آئین اور قانون کے مطابق چلانا ممکن نہیں رہا تھا اِسلئے مجبوراً مداخلت کرنی پڑی اور وہ انتظام و انصرام اگلے دس برس آئین سے ماورا ہی چلتا ہے۔

 

امریکی سپریم کورٹ کے ایک معروف جج نے جعلی مقابلوں میں ملزمان کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پولیس نالائق ہے، وہ کیسز ٹھیک سے نہیں بنا سکتی، اور ڈھنگ سے ثبوت اکٹھے نہیں کر سکتی تو پھر مجرم کو چھوڑنا ہی پڑے گا کیونکہ پولیس کی نالائقی کی وجہ سے پورا قانونی نظام داؤ پر نہیں لگا کر کسی کو زور زبردستی سے سزا نہیں دی جا سکتی۔ امریکی جج نے مزید کہا کہ ویسے بھی اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو پولیس والا اپنے افسر کے حکم پر کسی ڈاکو کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر سکتا ہے وہ کل کو کسی بے گناہ شہری کو نہیں مارے گا؟۔

 

یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ آپ کو معصوم بچی زینب کا ریپ کیس تو یاد ہوگا، جب زینب کا قاتل پکڑا گیا تو اُس نے 5 مزید بچیوں کے ریپ اور قتل کا بھی اعتراف کیا، تحقیق سے پتا چلا کہ اُن پانچ میں سے ایک بچی کے ریپ اور قتل کے الزام میں پولیس پہلے ہی ایک شخص کو جعلی مقابلے میں قتل کر کے ’انصاف‘ فراہم کر چکی ہے۔ تاہم اِس سارے کھیل میں صرف پولیس کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں، ہر پولیس مقابلے کی ایک جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے اور ہر انکوائری کے نتیجے میں متعلقہ سیشن جج پولیس کو کلین چِٹ دیتا ہے۔ دوسری طرف معاشرہ بھی اِس کا ذمہ دار ہے، خاص طور سے کاروباری طبقہ جو نتھو گورایا جیسوں کو بھتہ دے کر عاجز آیا ہوتا ہے، ایسے میں جب کوئی پولیس افسر اسے مقابلے میں ہلاک کرکے پورے شہر میں اُس کی لاش کو گھماتا ہے تو وہ شہر کا ہیرو بن جاتا ہے۔ لیکن یہ بے حد خطرناک راستہ ہے کیونکہ جب بھی آپ جعلی پولیس مقابلوں کو بڑھاوا دیتے ہیں، چاہے نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو، اس کا نتیجہ خوفناک نکلتا ہے۔

Back to top button