بی ایل اے پر پابندی: امریکہ نے پاکستان کے ساتھ چین کو بھی رام کیا

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت سے تعلقات خراب ہونے کے بعد نہ صرف پاکستان سے دوستی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ چین کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں شروع کر ہیں۔ ان کوششوں کا ایک ثبوت حال ہی میں امریکہ کی جانب سے بلوچستان لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں ڈال کر ان پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں تنظیم پاکستان میں چینی شہریوں اور چینی مفادات پر حملوں میں شامل رہی ہیں۔ ان دونوں تنظیموں نے علی الاعلان چین کو اپنا دشمن قرار دے رکھا ہے چونکہ وہ بلوچستان میں گوادر منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
نصرت جاوید روزنامہ نوائے وقت کے لیے اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ بی ایل اے اور اس سے وابستہ مجید بریگیڈ کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیمیں قرار دیا جانا یقینا پاکستان کی قابل تحسین سفارتی کامیابی ہے۔ ان دونوں کو دہشت گرد ٹھہرائے جانے کا اعلان روایتی انداز میں نہیں ہوا۔ امریکی وزارت خارجہ کے کسی افسر سے کوئی پریس ریلیز بھجوانے کے بجائے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے براہ راست ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان کو غور سے پڑھیں تو بلوچ انتہا پسند تنظیموں کو محض پاکستانیوں ہی کو نشانہ بنانے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس بیان میں گزشتہ برس کراچی ایئرپورٹ اور گوادر بندرگاہ پر چینی ماہرین پر ہوئے حملوں کا ذکر بھی موجود یے۔ گویا امریکہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کی وجہ سے بھی بلوچ دہشت گردوں کو قابل مذمت وتعزیر قرار دیا ہے۔
جس روز مارکو روبیو کا بی ایل اے کے حوالے سے تادیبی بیان جاری ہوا عین اسی روز امریکی صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے چین کی اپنی ملک آئی مصنوعات پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کو مزید 90دنوں تک معطل کردیا۔ ایسی معطلی کا اعلان نوے دن قبل بھی ہوا تھا۔ امریکہ نے جب چینی مصنوعات پر مضحکہ خیز حد تک ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا تو چین نے نہایت سخت زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاں آئی امریکی مصنوعات پربھی تقریباََ مساوی ٹیکس لگانے کا اعلان کردیا۔ ٹرمپ کو سمجھ آگئی کہ وہ چین کو تھلے نہیں لگاپائے گا۔ فیصلہ معطل کردیا۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ چین کے حوالے سے امریکہ کی سب سے بڑی مجبوری وہ مقناطیسی چپ ہے جو موبائل فونز میں لگنے والی سم سے بھی کہیں زیادہ چھوٹی اور تقریباََ نظر نہ آنے والی ہوتی ہے۔ اس چپ کو ایک ’’نایاب مٹی‘‘ سے بنایا جاتا ہے جس کے بغیر موبائل فونز، کمپیوٹر اور ڈیجیٹل زمانے میں مددگار دیگر آلات بنائے ہی نہیں جا سکتے۔ مصنوعی ذہانت کا انقلاب بھی ’’نایاب مٹی‘‘ کی ذرہ نما چپ کے بغیر برپا نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ کئی برسوں سے چین نے خاموشی سے اس چپ کی تیاری پر اجارہ حاصل کر لی ہے۔ امریکہ نے اسے تیار کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ چین کی اس اجارہ داری نے اب امریکہ کو حواس باختہ بنا ڈالا ہے۔ اسی باعث صدر ٹرمپ اب دنیا بھر میں ’’نایاب مٹی‘‘ کے ذخائر کو دیوانوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہے۔ اسے قوی امید ہے کہ پاکستان کی زمین بھی ایسی مٹی سے مالا مال ہے۔ ہماری ’’خاک‘‘ گویا بھاری بھر کم اثاثے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے چین کی چاپلوسی بھارت کو بہت تکلیف پہنچائے گی۔ رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی صدر بش کے دور میں فیصلہ ہوا تبا کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مہارت کی بدولت بھارت اس قابل ہوگیا ہے کہ اسے امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے چین کے مقابلے کی قوت بنایا جائے۔ صدر بش کے بعد آنے والے امریکی صدر اس تصور کا تعاقب کرتے رہے۔ ٹرمپ نے بھی اپنے سابقہ دورِ صدارت میں ہہی رویہ اختیار کیا۔ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی اور ٹرمپ نے امریکہ اور بھارت میں عوامی اجتماعات سے مشترکہ خطاب کئے۔ ایسے جلسوں کو انتخابی مہم کی شکل دینے کی کوشش بھی ہوئی۔
سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ بھارت جن ملکوں سے اپنی ضرورت کی اشیاء درآمد کرتا ہے چین ان میں سر فہرست ہے۔ چین اور بھارت کے مابین ہونے والی تجارت بھارت کے لئے انتہائی خسارے کا سبب ہے۔ چین پر معاشی اعتبار سے کلیدی انحصار کے باوجود وہ اپنے ہمسایے کے ساتھ سرحدی تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل نہیں کر پایا ہے۔ انڈیق رواں صدی کے آغاز سے اس گماں میں مبتلا ہو گیا کہ امریکہ اس کی لداخ میں چین-بھارت سرحد پرفوجی اعتبار سے موجودگی کوطاقتور بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔ لیکن امریکہ کی ترجیح چین کے ساحلوں کو چھوتا سمندر اور وہاں سے ہوئی بحری تجارت تھی۔ امریکی ترجیحات پر توجہ دینے کے بجائے مودی نے ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت شروع ہوتے ہی بغیر کسی ثبوت کے پہلگام کی دہشت گردی کا ذمہ دار قرسر دے کر 7 مئی کو پاکستان پر میزائل برسا دئے۔
صدر ٹرمپ نے خود کو پاک بھارت جنگ سے الگ رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن جلد ہی اسے یہ احساس ہو گیا کہ بھارتی جارحیت جنوبی ایشیاء کے ازلی دشمنوں کو ایٹمی جنگ کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ ممکنہ ایٹمی جنگ روکنے کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر ہوئے مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کے مابین جنگ بندی ہوگئی۔ پاکستان نے کھلے دل کے ساتھ پاک-بھارت جنگ رکوانے میں امریکی صدر کے کردار کا اعتراف کیا۔ لیکن بھارتی حکومت آج بھی اس دعویٰ پر ڈٹی ہے کہ پاک-بھارت جنگ ٹرمپ کی وجہ سے ’’بند‘‘ نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھارت نے ازخود ’’وقفہ‘‘ کا فیصلہ کیا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے بھارتی رویے کو اپنی توہین سمجھا۔ بطور کاروباری آدمی وہ پہلے ہی سے محسوس کررہا تھا کہ بھارت میں بنی اشیاء کی امریکہ میں بھرمار ہے جبکہ بھارت امریکہ سے بہت کم اشیاء خریدتا ہے۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے امریکی اشیا کی بھارت آمد روکنے کے لئے 50 فیصد ٹیکس عائد کر دئے ہیں۔ دوسری جانب چین، جس کے مقابلے پر امریکہ نے انڈیا کو کھڑا کرنا تھا، وہ ابھی تک ایسے ٹیکسوں سے محفوظ ہے اور اب بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم ٹھہراتے ہوئے امریکہ نے چین کی مزید دلجوئی کی کوشش کی ہے۔ دلجوئی کی یہ کاوش بھارتی حکومت میں شامل کئی لوگوں کے دل جلائے گی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ بھارت سے دوری اختیار کرنے کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے قریب ہونے کی شعوری بھہ کوشش کر رہا ہے۔
