سوشل میڈیا: عمرانڈو ٹرولز کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے عدالتیں قائم
وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں اور اعلیٰ شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا اور نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس مقصد کیلئے وفاقی حکومت نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار افراد کے ٹرائل کیلئے قانونی تقاضاپورا کرلیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں پیکا ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے کورٹس کی منظوری دیدی ہے ۔
ذرائع کے مطابق سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی روف حسن اور دیگر کاٹرائل پیکا ایکٹ کے تحت ہوگا۔ذرائع کے مطا بق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2جون کے فیصلے کی روشنی میں یہ عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دی گئی ۔فیصلہ کے تحت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، سول جج ایسٹ اینڈ ویسٹ کو ٹرائل کا اختیار دیدیا گیا ہے۔جس کے بعد پیکاایکٹ کے تحت گرفتاریوں میں اضافے کا امکان ہے، سپیشل کورٹس میں پیکا ایکٹ کے تحت اسپیڈی ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے ججز نامزد ہونگے۔ اس حوالے سے وزارت قانون کی سمری پر وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل لی گئی ہے۔
دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی جانب سے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کے بعد ملک کے سیاسی، سماجی اور دیگر حلقوں میں اس اصطلاح پر بحث شروع ہو گئی ہے۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بحث جاری ہے کہ ‘ڈیجیٹل دہشت گردی’ کیا ہوتی ہے اور اگر اس طرح کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے تو یہ کون کرتا ہے اور اِس سے کن اہداف کا حصول ممکن ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ڈیجیٹل ٹیررازم سائبر کرائم کی ایک اپ ڈیٹڈ اصطلاح ہے۔جیسے ہتھیاروں سے دہشت گردی کی جاتی ہے۔ آئی ٹی کی دنیا میں یہ بغیر ہتھیاروں یعنی ویپن لیس دہشت گردی ہے۔ سوشل میڈیا، ویب سائٹس اور کوئی بھی ایسا پلیٹ فارم جو ڈیجیٹل کہلاتا ہے وہاں کسی فرد، ادارے یا حکومت کے خلاف ایسی پوسٹس یا انفارمیشن لگائی جا رہی ہوں جو اُس کے خلاف ہوں وہ ڈیجیٹل ٹیررازم کہلائے گی۔
خیال رہے کہ اِس سے قبل ڈیجیٹل ٹیررازم کی اصطلاح رواں برس مئی میں پاکستان کی فوج کے کور کمانڈرز اجلاس میں بھی استعمال کی جا چکی ہے جس میں اِس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔کور کمانڈرز کے اِس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی قیادت اور ادارے پر تنقید کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ باجوہ کے مطابق”ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کر کے عام لوگوں، اداروں یا شخصیات پر حملے کیے جائیں اور خوف پھیلایا جائے تو وہ ڈیجیٹل ٹیررازم یا ڈیجیٹل دہشت گردی کہلائے گی اور یہ سائبر کرائم بھی ہے۔” ڈیجیٹل ٹیررازم کی اصلاح پوری دنیا میں استعمال کی جاتی ہے۔ ہر ملک میں اِس پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی تجرباتی طور پر یہ کام شروع کر دیے ہیں۔ گزشتہ دِنوں پاکستان میں واٹس ایپ کی سروسز سست ہوئی ہیں جس میں حکومت نے ایک مخصوص سافٹ ویئر کے ذریعے ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جو ڈیجیٹل ٹیررازم میں ملوث ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ اِس تجرباتی مشق کے دوران حکومت نے ایسے افراد تک رسائی حاصل کی جو کسی ادارے اور شخصیات کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تشہیر کر رہے تھے۔ جنہیں مستقبل میں حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے۔
سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد مصطفیٰ باجوہ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل ٹیررزام میں جس بھی جرم کے شواہد ایف آئی اے کے پاس آئیں گے اُسے اُس کے مطابق دیکھا جائے گا۔ ایف آئی اے میں اِس سلسلے میں سائبر کرائم ونگ اور کاونٹر ٹیررازم ونگ متحرک ہیں۔سجاد باجوہ کے مطابق ڈیجیٹل ٹیررازم کی تفتیش میں سب سے مشکل مرحلہ ثبوتوں اور شواہد جمع کرنا ہوتا ہے جب بھی کوئی ملزم ڈیجیٹل کرائم کرتا ہے تو اُس شخص کے زیرِ استمال ڈیجیٹل اور الیکٹرانک چیزیں تحویل میں لے لی جاتیں ہیں۔ ان میں عمومی طور پر لیپ ٹاپ، موبائل فون اور دیگر اشیاء شامل ہوتی ہیں جن کی فرانزک رپورٹ تیار کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر ایف آئی اے اپنی تفتیش آگے بڑھاتی ہے۔ تاہم ایسے جرائم کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔