کیا پاکستان ایران اسرائیل جنگ میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر کے مابین ہونے والی ملاقات اس وقت دنیا بھر میں موضوع بحث ہے، بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوجی سربراہ اسرائیلی حملے سے قبل ایران کے دورے پر گئے تھے اور انکی فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔ عاصم منیر سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے بتایا ہے کہ ان دونوں کی ایران کے مسئلے پر بھی بات ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا ریی ہیں کہ امریکہ پاکستانی آرمی چیف کے ذریعے ایران کے ساتھ بات چیت کا کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات سے قبل اور ملاقات کے بعد مسلسل انکی تعریف کرتے ہوئے نظر آئے۔ ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس کے باغیچے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنرل عاصم منیر نے پاکستان کی جانب سے انڈیا کے ساتھ جنگ روکنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔انکا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستانی فیلڈ مارشل کو انڈیا کے ساتھ جنگ نہ کرنے پر شکریہ کے لیے بلایا تھا۔ انھوں نے ایران اور اسرائیل تنازعے کے حوالے سے بات چیت پر کہا کہ ’پاکستان ایران کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ ‘
اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آرمی چیف اور امریکی صدرکی ملاقات میں ایران اور اسرائیل تنازع کے حل کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں اور، امریکہ اور پاکستان درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کو سراہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں تجارت، اقتصادی ترقی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، توانائی، کرپٹو کرنسی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔
اسی حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات پاک امریکہ تعلقات میں ایک سنگ میل ہے۔ سماجی رابطے کے سائٹ ایکس پر انھوں نے لکھا کہ ’اس سے پہلے امریکی صدر کی پاکستانی آرمی چیف کو دعوت اور ملاقات کی مثال نہیں ملتی۔ یہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی 78 سالہ کی تاریخ میں سب سے اہم موڑ ہے۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’اس ملاقات میں بین الاقوامی اور خطے کے معاملات ڈسکس ہون سے ہماری اہمیت اجاگر ہوئی۔ مسائل حل کرنے میں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔‘
بی بی سی نے امریکی صدر اور پاکستانی آرمی چیف کی ملاقات میں ہونے والی گفتگو پر سیاسی تجزیہ کاروں اور ان ذرائع سے بات کی ہے جو کہ عاصم منیر کے دورہ امریکہ کی تفصیلات سے آگاہ ہیں۔
پاکستانی فوج اور امریکی صدر کے بیانات سے تصدیق ہوتی ہے کہ ایران اور اسرائیل تنازع دونوں شخصِات کے درمیان ملاقات کے دوران گفتگو کا موضوع رہا ہے۔لیکن واشنگٹن میں موجود اس دورے کی تفصیلات سے آگاہ ایک سویلین کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ایران یا اسرائیل جنگ کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دیا گیا۔ ذرائع نے کہا کہ ’پاکستانی قیادت سمجھتی ہے کہ اس مسئلے کا سفارتی حل نکل سکتا ہے اور اسکی جانب سے ایران کو بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہوگا اور معاملات سفارتی طور پر حل کیے جا سکتے ہیں۔‘
تاہم ماہرین ایران اور اسرائیل کے درمیان پاکستان کے کردار پر تقسیم نظر آتے ہیں۔ نیوز لائنز انسٹٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں امکان یہی ہے کہ پاکستان کوشش کرے گا کہ ایران موجودہ تنازع سے نکلنے کے لیے سفارتی طریقہ کار استعمال کرے اور مزید کشیدگی بڑھانے سے گریز کرے۔‘ لیکن کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ایران کے معاملے پر پاکستان کا کردار بہت محدود ہے۔ انکے مطابق امریکی صدر ایک حد تک درست کہہ رہے ہیں کہ ایران کے حوالے سے پاکستان اہمیت رکھتا ہے کیونکہ بطور ایران کے پڑوسی وہ وہاں رونما ہونے والے سکیورٹی اور سیاسی واقعات سے متاثر ہوتا ہے، تاہم پاکستان کا کردار ایران میں ہونے والی کسی بھی پیش رفت کے حوالے سے کافی محدود ہے۔‘
یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات انڈیا کے لیے ایک اشارہ ہے؟ یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار دن جنگ چلی اور پھر دونوں ممالک کی جانب سے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اس جنگ بندی کا کریڈٹ صدر ٹرمپ کو دیتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن انڈین حکومت کی جانب سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا جس میں جنگ بندی کے لیے امریکہ کے کردار کا اعتراف کیا گیا ہو۔کامران بخاری کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ نئی دہلی کو اسلام آباد کے حوالے سے مثبت پیغامات دے کر کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔