شہباز یا زرداری کی بجائے عاصم منیر سے ملاقات: اصل حاکم کون؟

امریکی صدر ٹرمپ کی وزیراعظم شہباز شریف یا صدر آصف علی زرداری کی بجائے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات نے پاکستان میں سیاسی حکومت کے کمزور اور فوج کے طاقتور ہونے کہ تصور کو مزید واضح کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پاکستانی صدر یا وزیر اعظم کی بجائے آرمی چیف سے ملاقات نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصل مرکز فوج ہے جبکہ دیگر ریاستی ادارے اس کے مرہون منت ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کیا اورتقریباً دو گھنٹے کی ملاقات کی۔ پاکستان میں مختلف حلقے اس واقعے کو مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ کچھ اسے ایک غیر معمولی واقعہ اور پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ اس ملاقات سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ابتری سے بہتری کی جانب جائیں گے۔ لیکن تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ناقدین کا ماننا ہے کہ ملاقات سے پاکستان کی سیاسی حکومت مزید کمزور ہوئی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بلاشبہ امریکی صدر اور پاکستانی آرمی چیف کی ملاقات غیر معمولی بات ہے کیونکہ تاریخ میں پہلی بار کسی آرمی چیف کو انفرادی حیثیت میں وائٹ ہاؤس بلایا گیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کے لیے یہ شرمندگی کا باعث بنی ہے۔
دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ون آن ون ملاقات کو پاک-امریکہ دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم سنگِ میل” قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اگر ہمارے عسکری تعلقات کوئی موقع فراہم کرتے ہیں تو پاکستان کو اسے اس خطے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ آرمی چیف کو ایک ایسے وقت میں وائٹ ہاؤس مدعو کرنا جب بھارت کے ساتھ کشیدگی ہے اور ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری ہے، پاکستان کے لیے ایک اچھا اشارہ ہے، لیکن اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا پاکستان میں حکومت کی بجائے فوج کو اصل فیصلہ ساز مانتے ہوئے اسی سے رجوع کرتی ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما بھی ٹرمپ اور عاصم منیر کی ملاقات کو ملک کے لیے ایک مثبت اشارہ قرار دیتے ہیں، لیکن ساتھ ہی کہتے ہیں کہ یہی وہ بات ہے جو پی ٹی آئی پہلے سے جانتی تھی کہ ٹرمپ کو بھی یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی معاملے پر بات کس سے کرنی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما، سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند کے مطابق ”یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی صرف عسکری قیادت سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ دنیا جانتی ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ کہ اصل طاقت کس کے پاس ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ملاقات ملک کے لیے بری نہیں ہے، لیکن یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اتنی باصلاحیت نہیں کہ اس سطح کی ملاقاتیں کر سکے۔
ڈاکٹر ہمایوں نے زور دیتے ہوئے کہا، "ملاقات اچھی ہے، لیکن جس نے یہ ملاقات کی کیا وہ پاکستان کا لیڈر ہے؟ اس سوال کا جواب ہے نہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کیا کر رہی ہے؟ عمومی طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی قیادت کے ساتھ ہوتی ہے، لیکن جب ٹرمپ سیاسی قیادت ک بجائے عسکری قیادت کو مدعو کریں تو ہماری سیاسی قیادت کی صلاحیت پر سوال اٹھتا ہے۔”
سینئر تجزیہ کار زاہد حسین بھی ڈاکٹر ہمایوں سے متفق نظر آتے ہیں او کہتے ہیں کہ "پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکی صدر نے آرمی چیف کو سربراہِ مملکت جیسا پروٹوکول دیا۔ یہ ایک غیر معمولی قدم ہے۔ اس سے پاکستان کے بارے میں یہ تاثر مزید مضبوط ہوا ہے کہ ملک پر حکمرانی کس کی ہے۔” کچھ سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ امریکہ کا پاکستان کی طرف جھکاؤ ملک کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے، اور چاہے امریکی صدر سے ملاقات کسی نے بھی کی ہو، یہ بہرحال بھارت کے لیے ایک دھچکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلواشہ بہرام کا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ٹرمپ نے ہماری فوجی قیادت کو مدعو کیا اور انہوں نے وہاں ملک کی نمائندگی کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر پاکستانی عسکری قیادت کو اہمیت دے رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی قصور نہیں، یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو تمام امور سے جُڑا رکھے۔”