صدر ٹرمپ اور عاصم منیر ملاقات: خان کی رہائی کا امکان مکمل ختم

عمران خان کی خواہش پر تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے بانی کی رہائی کے لیے ایک مرتبہ پھر خیبر پختون خواہ سے تحریک شروع کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کا نتیجہ پارٹی قیادت کو بھی معلوم ہے، یعنی مستقبل قریب میں بھی عمران خان کے جیل سے باہر آنے کا کوئی امکان نہیں اور نئی تاریخ بھی بے نتیجہ ثابت ہوگی۔
تحریک انصاف کے لیے سب سے بری خبر یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی رہائی کے لیے جس ٹرمپ سے مثبت کردار ادا کرنے کی امیدیں لگا رکھی تھی انہوں نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ یوں تحریک انصاف کی قیادت کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی کی صوبائی قیادت نے ان کی رہائی کی پشاور سے خاموشی کیساتھ تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اس تحریک کے دوران پارٹی نے جلسوں کے علاوہ ریلیاں نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کا پہلا منی جلسہ چند روز پہلے ہشتنگری کے مقام پر منعقد ہوا جس میں سابق سپیکر اسد قیصر اور خیبر پختون خواہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر جنید اکبر سمیت صوبائی قیادت شریک ہوئی۔ اس جلسے میں صرف چند سو افراد شریک ہوئے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنی ٹھنڈی میٹھی تقاریر میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے 12 جون کو پشاور میں بھی ایک عدد احتجاجی ریلی نکالی جو کہ وزیر اعلی ہاؤس سے شروع ہو کر موٹروے پر جا کر ختم ہوئی۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑا شو متھرا کے علاقے میں 14 جون کو منعقد کیا گیا، جس میں وزیراعلی علی امین گنڈاپور سمیت پارٹی کے مرکزی قائدین موجود تھے۔ اپنی تقریر میں وزیراعلی نے ایک بار پھر کہا کہ وہ عمران خان کی رہائی کی تحریک چلانے کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار ہم لوگ بھرپور تیاری کیساتھ اسلام آباد جائیں گے، اس دوران اگر گولی چلی تو ہماری طرف سے بھی جواب گولی سے ہی دیا جائے گا۔‘
تاہم یاد رہے کہ آخری مرتبہ نومبر میں وزیراعلی گنڈا پور نے بشری بی بی کی زیر قیادت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا تھا لیکن جب پولیس نے جوابی کارروائی شروع کی تو گنڈاپور اور بشری دونوں اپنے ورکرز کو پیچھے چھوڑ کر واپس پشاور کی طرف فرار ہو گئے تھے۔ 26 نومبر کو گنڈاپور اور بشری کے جوتیاں اٹھا کر فرار ہونے کے بعد سے تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور ختم ہو چکی ہے اور پارٹی قیادت کی جانب سے بار بار احتجاجی کالز دینے کے باوجود لوگ احتجاج کے لیے اکٹھے نہیں ہو پا رہے اور نہ ہی کوئی تحریک چل پا رہی ہے۔
تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات ایم پی اے ملک عدیل اقبال کے مطابق کڑی گرمی کے باوجود اچھی تعداد میں کارکن پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے، چنانچہ اب سیاسی سرگرمیوں کو تیز کیا جائے گا۔
ان کے مطابق احتجاجی تحریک میں کارکنوں کی شرکت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے قائد کی رہائی کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ تاہم دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران کی رہائی کے لیے تحریک شروع ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک نہ تو کوئی ماحول بنا ہے اور نہ ہی تحریک نے کوئی تاثر چھوڑا ہے۔
ٹرمپ کی ثالثی مسترد کرنے کے بعد مودی اور ٹرمپ تعلقات خراب
پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار پروفیسر عامر یوسفزئی کہتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کے لیے پشاور ایک بار پھر سیاست کا مرکز بن رہا ہے، اس کو پی ٹی آئی کا گڑھ مانا جاتا ہے، یہاں اس کی حکومت ہے اور نظریاتی ورکرز کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ ان کے مطابق ’پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی پریشر کو بڑھانے کے لیے جلسے کر رہی ہے تاہم فی الوقت علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا، یہ فیصلہ عمران خان کو خود کرنا ہے مگر اس کی حکمت علی امین گنڈاپور ترتیب دیں گے عامر یوسفزئی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جون جولائی اور اگست تک کسی بھی بڑی محاذ آرائی کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ پارٹی قیادت کی کوشش ہے کہ تحصیل سطح پر جلسے کر کے مایوس اور ناراض ورکرز کو امید دلائی جائے۔
تاہم چونکہ 15 روز سے عمران خان کی رہائی کے لیے چلنے والی تحریک نے ابھی تک کوئی تاثر نہیں چھوڑا تھا لہذا بانی پی ٹی آئی نے ایران اور اسرائیل جنگ کی آڑ لیتے ہوئے 17 جون کو جیل سے ایک پیغام میں پارٹی قیادت کو اپنی تحریک دو ہفتے کے لیے مؤخر کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ تو ہم ناقدین اسے فیس سیونگ کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں۔