1965 کی پاک انڈیا جنگ کا فاطمہ جناح سے کیا تعلق تھا ؟

1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ کیا جنرل ایوب خان نے یہ جنگ کشمیر کی خاطر کی تھی یا فاطمہ جناح سے دھاندلی کے زور پر صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے لڑی تھی۔

قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں: ”صدر ایوب جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے اور ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ تنازعہ کشمیر کا حل ہم نے پاکستان کے مفاد کی خاطر ڈھونڈنا ہے۔ اس حل کی تلاش میں پاکستان کو داؤ پر نہیں لگانا۔“ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی بنا پر جنگ کا نام لیتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے والے ایوب خان کو بھی یہ جنگ لڑنا پڑی؟

قصہ کچھ یوں ہے کہ جنوری 1965 میں پاکستان کا بھارت کے ساتھ ”رن آف کچھ“ کا تنازع شروع ہوا اور جنوری 1965 میں ہی تب کے فوجی صدر ایوب خان نے قائدِ اعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو کھلی دھاندلی کے ذریعے صدارتی انتخابات ہرا دیا۔ ان صدارتی انتخابات میں ایوب کو جتوانے کے لیے جو حرکات کی گئیں اُن کی وجہ سے اس کا امیج کافی خراب ہو گیا، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ایوب خاں نے اپنا خراب امیج بہتر بنانے کی خاطر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ”آپریشن جبرالٹر“ شروع کرنے کا سوچا۔ صدر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنی کتاب ”ایوان اقتدار کے مشاہدات“ میں لکھ رکھا ہے کہ آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ وزارت خارجہ کی رپورٹ پر بنایا گیا۔ ایوب کو یقین دلایا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر میں فوجی کارروائی کی، تو بھارت بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا۔ لیکن معلوم نہیں ”حتمی فیصلے“ کا اختیار رکھنے والے ایوب خان نے اس بات پر اندھا یقین کیوں کیا؟

گوہر ایوب لکھتے ہیں: ”آپریشن جبرالٹر سرکاری طور پر 8 اگست 1965 کو شروع کیا جانا تھا۔ تاہم مجاہدین کو کشمیر کے اندر داخل کرنے کی کارروائی 5 اگست 1965 کو ہی شروع کر دی گئی۔ اگست کے اوائل میں تقریباً چار ہزار مجاہدین کو تربیت دے کر بھارتی مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا۔ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کر دیا اور بعض فوجی پوسٹوں پر حملے کیے۔ مجاہدین کی کارروائیاں زور پکڑنے کے ساتھ بھارتی فوج نے مجاہدین کے داخلی پوائنٹس کی طرف تیزی سے پیش قدمی شروع کر دی۔ انہوں نے مجاہدین کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جس میں کافی تعداد میں مجاہدین شہید ہو گئے اور بعض گرفتار بھی ہوئے۔

بھارتی فوج نے 26 اگست 1965 کو دفاعی لحاظ سے اہم علاقہ پیر صحابہ پاس پر قبضہ کر لیا۔ اگر بھارتی فوج تھوڑی سی پیش رفت اور کرتی تو مظفر آباد پر قبضہ ہو سکتا تھا۔ دو دن بعد بھارتی فوج نے حاجی پیر پاس کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ یوں آپریشن جبرالٹر سخت مشکلات کا شکار ہو گیا اور ناکام ہوا۔

یاد رہے کہ اپنی کتاب میں گوہر ایوب نے مقتدر قوتوں کی عزت داری کے لیے صرف مجاہدین کا ذکر کیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ ایوب دور میں بنائی گئی جبرالٹر فورس کے کمانڈوز بھی گرفتار ہوئے۔ آپریشن جبرالٹر اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ ایئر چیف مارشل نور خان کو بھی اس کی بھنک نہ پڑنے دی گئی۔ بھارت کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر آپریشن جبرالٹر کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم 31 اگست 1965 کو شروع کیا گیا، جس کا مقصد لائن آف کنٹرول پر دباؤ میں کمی لانا، جھمب چوڑیاں پر قبضہ اور اکھنور میں کشیدگی پیدا کر کے مظفر آباد کی طرف بھارتی پیش قدمی کو روکنا تھا۔ اس حوالے سے پیش قدمی جاری تھی اور عین ممکن تھا کہ یہ آپریشن کامیاب ٹھہرتا مگر اسوقت کے آرمی چیف جنرل موسٰی خان نے گھوڑا بدلنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اختر حسین ملک کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو ڈویژن کمانڈر تعینات کر دیا ۔ کمانڈر کی اس تبدیلی سے جو وقفہ ملا وہ بھارت کے لیے غیبی امداد ثابت ہوا، یوں آپریشن جبرالٹر کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم بھی ناکام ہو گیا۔

پاک فوج کے کمانڈر کی جنگ کے دوران اچانک تبدیلی کے حوالے سے ایوب کے ساتھ کام کرنے والے قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ کے صفحہ 365 پر لکھتے ہیں کہ ”جنرل اختر ملک نے اپنے پلان کے مطابق کارروائی شروع کی اور اکھنور کو فتح کرنے کے قریب ہی تھے کہ فوج میں جنرل موسیٰ سمیت کئی اور جرنیل بھی تشویش میں پڑ گئے کہ اگر اختر ملک کی مہم کامیاب ہوئی تو وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت سے ابھریں گے۔ صدر ایوب سمیت غالباً باقی بہت سے فوجی اور غیر فوجی صاحبان یہ نہیں چاہتے تھے کہ جنرل اختر ملک اس جنگ کے ہیرو بن کر ابھریں اور فوج کے اگلے کمانڈر انچیف کے عہدے کے حق دار بن سکیں کیوں کہ یہ عہدہ صدر ایوب نے ذہنی طور پر پہلے ہی جنرل یحیٰی خان کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ چنانچہ عین اس وقت جب میجر جنرل اختر ملک انتہائی کامیابی سے جھمب اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، انہیں کمانڈ سے ہٹا کر ان کی جگہ جنرل یحیٰی خان کو یہ کمانڈ سونپ دی گئی۔ غالباً اسی لیے کہ وہ پاکستان کو اکھنور فتح کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکیں۔ یہ فریضہ انہوں نے نہایت کامیابی سے سرانجام دیا۔“

اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ یہ جنگ کس نے شروع کی تھی؟ ہمیں نصابی کتابوں میں پختہ ایمان کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے کہ 6 ستمبر 1965 کو رات کی تاریکی میں بزدل دشمن نے اچانک پاکستان پر حملہ کر دیا۔ مگر یہ بات تاریخی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ ایک تو یہ کہ جنگ 6 ستمبر کو شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ 6 اگست کو ہی شروع ہو چکی تھی۔ دوسرا اگر 6 ستمبر کا دعویٰ مان بھی لیا جائے تو الطاف گوہر اپنی کتاب ”ایوب خان۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران“ کے صفحہ نمبر 336 پر لکھتے ہیں کہ ”نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے ترک وزیر کی وساطت سے ایک پیغام بھجوایا تھا کہ بھارت 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ دفترِ خارجہ کو یہ پیغام 4 ستمبر 1965 کو مل چکا تھا۔“ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بز دل دشمن نے یہ حملہ اچانک نہیں کیا تھا۔

اس وقت کے پاک فضائیہ کے دو سابق سربراہان، ایئر چیف مارشل (ر) اصغر خان اور ایئر چیف مارشل (ر) نور خان نے بالترتیب 4 مئی 2001 اور 2 اگست 2004 کو انٹرویوز میں دعویٰ کیا کہ 6 اگست 1965 کو کشمیر میں مداخلت کار بھیج کر پاکستان نے جنگ کا آغاز کیا۔ ایئر مارشل نور خان نے 6 ستمبر 2005 کو ”ڈان“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ”بری فوج نے ایک بڑا جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کیا کہ یہ جنگ بھارت نے چھیڑی تھی۔“

6 ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ کے 17 روز بعد 23 ستمبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ یہ رائے بھی موجود ہے کہ اگر یہ جنگ چند روز اور جاری رہتی تو پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔ جنگ بندی کے بعد یہ سوال اٹھا کہ یہ جنگ کون جیتا؟ پاکستانی عوام نے اس بات پر جشن منایا کہ ہم نے بھارتیوں کو لاہور میں ناشتہ کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہونے دی جبکہ بھارتی عوام نے اس بات پہ جشن منایا کہ پاکستان نے یہ جنگ کشمیر آزاد کروانے کے لیے لڑی تھی اور وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔

اس حوالے سے ایئر چیف مارشل نور خان نے 6 ستمبر 2005 کو ڈان اخبار کو انٹرویو میں پاکستان کی1965 کی جنگ میں فتح کو تاریخی جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ ”چونکہ اس جھوٹ کی تصیح نہیں کی گئی اس لئے پاک فوج اپنے ہی گھڑے افسانے پر یقین کرنے لگی ہے۔“

4 ستمبر 2015 کو جامعہ کراچی میں ممتاز دانشور اور تاریخ دان ڈاکٹرسید اکبر زیدی نے اپنے خطاب کے دوران کہا ”اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان نے 1965 کی جنگ جیتی تھی۔ دراصل ہم 1965 میں بُری طرح ہارے تھے۔“ یہ جنگ کون جیتا؟ یہ جانچنے کا ایک پیمانہ ”معاہدہ تاشقند“ بھی ہے، جس کے مطابق بھارت نے 710 مربع میل کا علاقہ پاکستان کو لوٹایا جبکہ پاکستان نے 210 مربع میل کا علاقہ واپس کیا۔

پاکستان ایئر فورس بھارتی حملوں کا جواب کب اور کیسے دینے والی ہے؟

اکتوبر 1964 کے بعد صدر ایوب اکثر اوقات بھارتی وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ”اس بالشت ڈیڑھ بالشت کے آدمی کے ساتھ کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا بیکار وقت ضائع کرنا ہے۔“ روس کے وزیرِ اعظم کے سامنے ایوب خان نے لال بہادر شاستری کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے تو سامنے سے کافی ”عزت افزائی“ ہوئی۔ 10 جنوری 1966 کو ایوب خان نے اسی بالشت ڈیڑھ بالشت کے آدمی کے ساتھ ”معاہدہ تاشقند“ پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے فوراً بعد بہادر شاستری کی موت کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں :

”دو تین دن بعد میں نے ہالینڈ کے ایک اخبار میں“ معاہدہ تاشقند ”کی تفصیلات پڑھیں۔ ساتھ ہی ایک فوٹو دیکھی جس میں صدر ایوب روسی وزیرِ اعظم کے ہمراہ بہادر شاستری کے تابوت کو کندھا دے کر دہلی جانے والے ایک جہاز کے طرف جا رہے تھے۔ اس تابوت میں صرف شاستری جی کا جسد خاکی ہی نہ تھا بلکہ اس میں مسئلہ کشمیر پر یو این او میں ہماری تمام پیش رفت بھی لپیٹ کر مقفل کر دی گئی تھی کیونکہ 10 جنوری 1966 کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیکیورٹی کونسل کی قرار دادیں نہ رہی تھیں بلکہ معاہدہ تاشقند کی وہ شق تھی جس میں ریاستِ جموں وکشمیر کا ذکر محض ضمنی طور پر آیا تھا۔ باقی، زندہ دل پاکستانی قوم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان برقرار رکھے کہ یہ جنگ ہم نے کشمیر کے لیے لڑی تھی”۔

Back to top button