کیا ریاست کی غلط پالیسی نے افغانستان کو ہمارا دشمن بنایا؟

 

 

 

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستانی ریاست نے افغانستان کے حوالے سے غلط پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ بھارت اس محاذ پر سیانہ نکلا ہے، اسی وجہ سے افغان طالبان حکومت انڈیا کی اتحادی بن گئی ہے اور پاکستان کو دشمن سمجھا جا رہا ہے۔

 

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستانی فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہیے کہ افغان ڈی این اے مختلف ہے‘ اسے ہر دور میں میدان جنگ چاہیے‘ افغانی کسی نہ کسی بیرونی طاقت سے لڑنے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن اگر انھیں یہ سہولت میسر نہ ہوئی تو پھر یہ آپس میں بھڑ جائیںگے، لہٰذا پاکستان کو ان کے لیے وہ بیرونی طاقت نہیں بننا چاہیئے جس کے ساتھ وہ ایک مستقل جنگ چھیڑ لیں کیونکہ بھارت چاہتا ہے کہ ایسا ہو۔

 

روزنامہ ایکسپریس کے لیے اپنے تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بھارت اس وقت افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو یقین دلا رہا ہے کہ پاکستان ماضی کی برطانوی‘ روسی اور امریکی سلطنت جیسا ہے‘ لہٰذا تم اسکے ساتھ بھی وہی سلوک کرو جو تم نے تاریخ میں ان قوموں کے ساتھ کیا تھا۔ ایسے میں ہمیں انڈیا کو یہ موقع نہیں دینا چاہیے‘ افغان اگر ہندو سے نفرت کرتے ہیں تو ہم بہت بڑے بے وقوف ہوں گے جو اس نفرت کو اپنی طرف موڑ لیں اور بدقسمتی سے اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق حالات یہ ہیں کہ افغانستان میں اس وقت پاکستان اور پنجابی گالی بن چکے ہیں جسکا مستقبل میں پاکستان کو نقصان اور بھارت کو فائدہ ہو گا۔

 

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ افغانیوں کی اصل لڑائی بھارت کے ساتھ تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستان نے اس کا رخ اپنی طرف موڑ لیا۔ اس میں غلطی ہماری ہے کیونکہ ہماری سفارتی اپروچ غلط ہے۔ ہم ہمیشہ افغانستان کی اپوزیشن کو سپورٹ کرتے ہیں جب کہ انڈیا افغانستان کی ہر حکومت کو تسلیم کر لیتا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کر لیتاہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ظاہر شاہ کے دور میں ہم محمد داؤد کو سپورٹ کر رہے تھے جب کہ بھارت ظاہر شاہ کے ساتھ تھا‘ اس زمانے میں تمام افغان سینماؤں میں بھارتی فلمیں چلتی تھیں اور ہندو اور سکھ افغانستان کے بڑے تاجر ہوتے تھے۔ جب داؤد خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹا تو ہم نے ظاہر شاہ کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے جب کہ انڈیا داؤد کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ جب روسی افواج افغانستان میں گھسیں تو ہم مجاہدین کے ساتھی بن گئے‘ ہم نے انھیں رقم‘ ٹریننگ اور اپنے نوجوان دے دیے جب کہ انڈیا سوویت کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔

 

روس کے بعد جب مجاہدین کی حکومتیں بننے لگیں تو ہم نے طالبان تخلیق کر دیے جب کہ انڈیا نے اپنے دروازے مجاہدین کے لیے کھول دیے۔ طالبان کی پہلی حکومت آئی تو ہم نے ان کے ساتھ بھی متھا لگا لیا‘ طالبان کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی آئے تو ہم ان کے بھی مخالف ہو گئے اور طالبان کی سرپرستی کرنے لگے اور اب افغان طالبان اقتدار میں ہیں تو ہم ان کے مخالفوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں جب کہ بھارت نے ان کی خوشی کے لیے امیر خان متقی کی پریس کانفرنس سے تمام خواتین رپورٹرز باہر نکال دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی افغانستان کے حوالے سے اپنی اپروچ بدلنا ہو گی‘ افغان جس کو بھی لے کر آتے ہیں ہمیں اچھے ہمسائے کی طرح اسے قبول کر لینا چاہیے۔ ہمیں افغانستان کو تحریک انصاف نہیں سمجھنا چاہیے۔

 

جاوید چوہدری سوال اٹھاتے ہیں کہ ان حالات میں پاکستان کو اب کرنا کیا چاہیے؟ ان کے مطابق اس کا جواب بھارت کے ریٹائرڈ جرنیل لیفٹیننٹ جنرل کے جی ایس ڈھلوں نے دیا تھا‘ یہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی 15 کور کا کمانڈر رہا‘ اس نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے بارے میں کہا تھا ’’پاکستان از ناٹ اے سیریس کنٹری‘‘۔ اس کا کہنا تھا پاکستان کا ہر وزیر اعظم اقتدار کے بعد ملک سے بھاگ جاتا ہے یا پھر جیل جاتا ہے جب کہ بھارت میں واجپائی کی حلف برداری کی تقریب میں من موہن سنگھ جاتا ہے اور نریندر مودی کی تقریب میں راہول گاندھی شریک ہوتا ہے۔ پاکستانی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتیں اور ہر وزیراعظم اقتدار کے بعد اپنی فوج کو برا بھلا کہتا ہے‘‘۔

 

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ جنرل ڈھلوں ہمارا دشمن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کی کہی گئی بات غلط ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ناں ہے۔ جنرل ڈھلوں دشمن ہونے کے باوجود بات ٹھیک کہہ رہا ہے۔

ہمیں اس پر غور کرنا ہو گا‘ ہمیں پاکستسن میں سیاسی استحکام لانا ہو گا‘ کاش کوئی ایک شخص اپنے اقتدار کی قربانی دے کر ایسی حکومت بنا دے جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور اس کے بعد سیاسی انجینئرنگ مکمل طور پر بند کر دی جائے تو ملک استحکام کی سڑک پر آ جائے گا‘ یہ مرحلہ شروع میں مشکل ہو گا لیکن پانچ سے دس سال میں نظام رواں ہو جائے گا‘ دوسرا فوج میں ایکسٹینشن کا کلچر ختم ہونا چاہیے‘ یہ وہ بدعت ہے جس نے ملک کو کسی قابل نہیں چھوڑا‘ آپ بے شک اداروں کے سربراہوں کو پانچ یا دس سال کے لیے مقرر کر دیں لیکن اس کے بعد ایکسٹینشن نہیں ہونی چاہیے‘ اسے ہر صورت جانا چاہیے اس سے بھی استحکام آئے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ میوزیکل چیئر چلتی رہے گی اور ہر نیا آنے والا پورے ملک کا قبلہ بدلتا رہے گا۔

کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت واقعی خطرے میں ہے؟

سینیئر اینکر پرسن کہتے ہیں کہ آپ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی اپروچ کا تجزیہ کر لیں‘ آپ نقصانات کا بخوبی اندازہ کر لیں گے تاہم میں فیلڈ مارشل کی ہارڈ اسٹیٹ کی اپروچ سے اتفاق کرتا ہوں‘ ریاست ہر صورت میں ریاست ہونی چاہیے۔  اسے سخت ہونا چاہیے‘ یہ کیا تھیٹر ہے جس کا دل چاہتا ہے سڑکیں بند کر دیتا ہے اور ملک مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے‘ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے‘ دوسرا ہم پر کبھی امریکا حملہ کر دیتا ہے‘ کبھی انڈیا اور کبھی برادر اسلامی ملک ایران اور افغانستان‘ یہ بھی کیا تماشا ہے‘ آپ کمال دیکھیں اب تحریک طالبان بھی اٹک کے پل تک اپنی امارات اسلامیہ بنانا چاہتی ہے لہٰذا فوج کی اپروچ درست ہے‘ ہمیں کسی کو بھی خواہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن پاکستان کی سرحد کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ ہم نے انڈیا کے ساتھ بھی ٹھیک نبٹا‘ ہم افغانستان کو ٹھیک فکس کر رہے ہیں اور ہم نے جنوری 2024 میں ایران کو بھی جواب دے کر اپنی عزت میں اضافہ کیا تھا‘ یہ اپروچ جاری رہنی چاہیے۔

 

انکا کہنا ہے کہ دنیا میں ہمارا کوئی دوست یا دشمن نہیں ہونا چاہیے‘ جو ہماری عزت کرے گا وہ ہمارا دوست ہو گا اور جو ہمیں کم زور یا بھکاری سمجھے گا اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو ہم اس وقت کر رہے ہیں اور آخری درخواست خدا کے لیے اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط کریں‘ مانگنا تانگنا بند کریں‘ ہم 25 کروڑ لوگ ہیں‘آپ قوم کو ہنرمند بنائیں‘ پورے ملک میں کوئی شخص بے ہنر نہیں ہونا چاہیے‘ قوم کو اپنے وسائل میں زندہ رہنا بھی سکھائیں اور ریاستی اداروں میں کرپشن اور لیکیج بھی ختم کریں‘ ہم پھر قوم بنیں گے‘ پاکستان کو اب خود کو سیریس ملک ثابت کرنا ہو گا ورنہ ہم باہر اور اندر دونوں جگہوں سے مار کھاتے رہیں گے۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!