کیا پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت واقعی خطرے میں ہے؟

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحاد کو مجبوری کا رشتہ تو قرار دے دیا ہے لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اس اتحاد کا سب سے زیادہ فائدہ خود ان کی ذات اٹھا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے اہداف ، اپنے منشور اور اپنے مقاصد ہوتے ہیں، دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اُن کا رشتہ واقعی کسی نہ کسی مجبوری کے بندھن میں بندھا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی یہی مجبوریاں اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لاتی اور جمہوریت کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گورنر پنجاب کو نہیں بھولنا چاہئے کہ مجبوری کے اس درخت کی ایک شاخ پر آج کل سردار سلیم حیدر کا اپنا خوش جمال نشمین بھی ٹکا ہوا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کی ہنگامی مدد اور بحالی کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان شروع ہونیوالی بسنت بظاہر ختم ہو گئی ہے اور بو کاٹا کے نعرے بھی تھم گئے ہیں، لیکن اب بھی کبھی کبھار آسمان کی طرف نگاہ اٹھے تو پیچ لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ یار لوگوں نے اس صورتِ حال سے نہ صرف لطف اٹھایا بلکہ دانشورانہ تجزیے بھی پیش کیے۔ گورنر پنجاب نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کو باہمی سہولت کاری کی شادی قرار دے دیا جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔
جو لوگ 1973ءکے بعد کی پاکستانی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اُنہوں نے یہ سب کچھ سنا اور ٹھٹھہ مخول کی طرح اڑا دیا۔ دونوں جماعتوں کے بزرگانِ سیاست نے بھی اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ صدر آصف زرداری تصادم گریز شخصیت ہیں۔ وہ معاملات کو ٹھنڈا رکھنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے سینئر سیاستدان ہونے کے ناطے میاں نوازشریف بھی سردو گرم دیکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وزیراعظم شہبازشریف بھی ممکنہ حد تک کشمکش سے گریز کرتے اور اپنے سیاسی ہم سفروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کیلئے نہایت کشادہ ظرفی کا مظاہر کرتے ہیں۔ وہ اِن دِنوں بیرونی دوروں کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود صدر آصف زرداری سے ملاقات کیلئے وقت نکالتے رہتے ہیں۔
عرفان صدیقی کے مطابق داخلی استحکام، جمہوری روایات، مشکل صورت حال میں معیشت کو سنبھالا دینے اور باہمی اشتراک سے قانون سازی کرنے کے لئے وزیراعظم، پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات کو ناگزیر خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف سے شروع ہونے والی بیان بازی بھاری توپوں کی گولہ باری نہ بن پائی۔ بات بڑھتے بڑھتے جب پارلیمنٹ کے ایوان سے پی پی پی کے ’واک آئوٹ‘ تک پہنچی تو خطرے کی گھنٹیاں ضرور بجیں لیکن دونوں جماعتوں کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو پھربھی یقین تھا کہ نہ تو کوئی دھماکہ ہو گا اور نہ ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین طلاق کی نوبت آئے گی۔ میثاق جمہوریت کے بعد دونوں جماعتیں اس طرح کے کھیل تماشوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ حصولِ اقتدار کی سیاست ہر سیاسی جماعت کے منشور کا جزو اعظم ہے۔ چنانچہ وہ ایک دوسرے کے مدّمقابل الیکشن لڑتی ہیں اور فطری طورپر ایک دوسرے کی حریف ہوتی ہیں۔ ہر ووٹر کے پاس ایک ووٹ ہوتا ہے جو وہ کسی ایک جماعت ہی کو دے سکتا ہے۔ 1973 کے آئین کے نفاذ سے لے کر آج تک پیپلزپارٹی ایک طرف رہی اور مسلم لیگ (ن) تنہا یا کسی سیاسی اتحاد کے نام پر اس کے مدّمقابل رہی۔ ہمارے ہاں کا انتخابی اکھاڑہ نرالے رنگ ڈھنگ رکھتا ہے، بلا کے انتخابی معرکے بپا ہوتے، رقابتیں عروج پر پہنچتی ہیں لیکن ایوان سجتے ہی سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ طویل مارشل لا کے بعد 1988 سے اب تک کے انتخابات کی تاریخ ایک بڑی واضح تصویر بناتی ہے۔ پیپلزپارٹی سے بے نظیر بھٹو شہید دو مرتبہ وزیراعظم رہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی اس منصب پر فائز رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عہدِ وزارت عظمی شامل کر لیا جائے تو پیپلزپارٹی چودہ برس سے زائد عرصے تک پاکستان کی حکمران رہی۔
اسی طرح نوازشریف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی کا اجتماعی عرصۂِ اقتدار بھی تیرہ برس کے لگ بھگ بنتا ہے۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر کچھ طاقتوں کو دو جماعتی نظام اچھا نہیں لگتا۔ ہم نے اس کے بارے میں ’’باریاں لے رہے ہیں‘‘ جیسی گالی وضع کر رکھی ہے حالانکہ برطانیہ کی دو سو سالہ جمہوری تاریخ میں ایک وزیراعظم کو چھوڑ کر تمام وزرائے اعظم لیبر پارٹی سے تھے یا کنزرویٹو پارٹی سے۔ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ کے 39 صدور میں سے 35 کا تعلق دو بڑی پارٹیوں، ڈیموکریٹک اور ری پبلکن سے تھا۔ دونوں ممالک میں آج بھی یہی چلن ہے لیکن کوئی ’’باریوں‘‘ کا طعنہ نہیں دیتا۔ وہ اسے اپنی جمہوری بلوغت اور پختہ کاری خیال کرتے ہیں۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 1988 سے 1999 کا عرصہ دونوں جماعتوں کے لئے نہایت تلخ اور اذیت ناک تھا۔ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم بنیں، لیکن دونوں مرتبہ عرصۂِ اقتدار مکمل کرنے سے پہلے گھر بھیج دی گئیں۔ نوازشریف کے سر پر تین بار وزارت عظمی کی دستارِ فضیلت سجی، تاہم تینوں بار وہ اپنی آئینی میعاد پوری کئے بغیر وزیراعظم ہائوس سے نکال دئیے گئے۔ ان دونوں کے لئے وطن کی سرزمین تنگ کردی گئی۔ یہی دور تھا جب دونوں حریف جماعتوں کے حریف راہنمائوں کے دِل میں دَردِ مشترک نے انگڑائی لی۔ چنانچہ 14 مئی 2006 کو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے درمیان سب سے معتبر دستاویز میثاق جمہوریت پر دستخط کر دیے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ’میثاق جمہوریت‘ پر کس حد تک عمل ہوا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں جماعتوں کے مابین ہونے والی اس مفاہمت نے ہماری جمہوری تاریخ کو ایک نیا چہرہ دیا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ کبھی کوئی رخنہ نہیں پڑا۔ ایسا نہیں کہ کبھی کسی نے ایک دوسرے کی طرف پتھر نہ اُچھالا ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ دونوں شِیروشَکر ہو گئے۔ جب جب، جس جس کو موقع ملا، خنجر آزمائی کرتا رہا۔ میمو گیٹ، پانامہ، ججوں کی بحالی، پرویز مشرف کا مقدمہ اور کتنے ہی دیگر معاملات میں سنگ زنی بھی ہوتی رہی لیکن پہلو بہ پہلو جمہوری تاریخ بھی رقم ہوتی گئی۔ دونوں جماعتوں کا معرکہ ہے کہ انہوں نے13ویں ترمیم کے ذریعے آئین کو آمرانہ علّتوں سے پاک کیا اور پھر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مشرف زدہ آئین کو ممکنہ حد تک اصل آئین کے قریب تر لائے۔ 2002ءکے بعد سے ہر اسمبلی نے میعاد پوری کی۔ ایک کوشش عمران خان نے کی جسے سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا۔ آصف زرداری عہدہ صدارت سے فارغ ہوئے تو وزیراعظم نے اُنہیں شاندار عشائیہ دے کر رخصت کیا۔
اسلام آباد پر یلغار کا خدشہ: KP میں گورنر راج کا امکان
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے لئے نہایت سرگرم کردار ادا کیا۔ بلاول نے ’بنیان مرصوص‘ اور ’معرکہ حق‘ کی عالمی سطح پر موثر ترجمانی کی۔ ابھی آزاد کشمیر میں، پیپلزپارٹی کی نئی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کے باوجود مسلم لیگ (ن) پیپلزپارٹی کیلئے مسائل پیدا نہیں کرے گی۔ باور کرلینا چاہیے کہ ہمارے ہاں دو جماعتی نظام نے پختہ جگہ بنا لی ہے۔ ایک تیسری عجیب الخلقت جماعت کا جو تجربہ کیاگیا، اُس نے دو روایتی جماعتوں کی جڑیں زیادہ مضبوط کر دی ہیں۔ دونوں کی بقا بڑے اہداف و مقاصد کے لئے ایک دوسرے سے جڑے رہنا ہے اور دونوں اس حقیقت کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
