جعلی ڈگری: جنرل باجوہ کا بھائی 47 برس تک PIA میں جاب کیسے کرتا رہا؟
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا طوطی آج بھی سر چڑھ کر بولتا سنائی دیتا ہے۔ خسارے کی شکار قومی ائیرلائن پی آئی اے نے جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملوث جنرل باجوہ کے 73 سالہ بھائی ڈپٹی اسٹیشن منیجر برطانیہ اقبال جاوید باجوہ کو نہ صرف مقدمات سے بچا لیا ہے بلکہ مراعات کے ساتھ ریٹائر کرکے کرپشن کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ حالانکہ اسی اسکینڈل میں ملوث 840 ملازمین پر مقدمات قائم کیے گئے، بیشتر جیلوں میں قید ہیں اور مقدمات بھگت رہے ہیں۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق جعلی ڈگری اسکینڈل میں فلائٹ سروسز سمیت قومی ایئر لائن کے دیگر شعبہ جات میں خدمات انجام دینے والی 30 خواتین بھی مارکس شیٹ اور تعلیمی اسناد میں ٹیمپرنگ کے الزام میں جیل بھیجی گئیں۔ تاہم سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے بھائی اقبال جاوید باجوہ کو پی آئی اے نے نہ صرف قانونی چارہ جوئی سے بچا لیا بلکہ انہیں انعام کے طور پر تمام مراعات کے ساتھ ریٹائر کر دیا ۔
9 مئی کے حملوں میں فیض کے علاوہ عمران کیخلاف بھی ثبوت مل گئے
خیال رہے کہ پی آئی اے نے سابق آرمی چیف کے سب سے بڑے بھائی اقبال جاوید باجوہ کی ملازمت ختم کر دی ہے۔ برطانیہ میں تعینات پی آئی اے کے ڈپٹی اسٹیشن منیجر اقبال جاوید باجوہ سے ایف اے کا سرٹیفکیٹ جعلی ہونے پر استعفیٰ لیا گیا ہے۔ لاہور بورڈ سے ایف اے کا سرٹیفکیٹ جعلی ثابت ہونے پر اقبال جاوید باجوہ کو مستعفی ہونے کو کہا گیا تھا۔ اس ضمن میں اقبال باجوہ کو 30 جولائی کو پی آئی اے کے فتانس مینیجر برمنگھم کے ذریعے شوکاز نوٹس دیا گیا اور 23 اگست کو اقبال جاوید باجوہ کی ملازمت ختم کر دی گئی ۔ پی آئی اے ریکارڈ کے مطابق اقبال جاوید باجوہ نے 1977 میں پی آئی اے راولپنڈی آفس میں ملازمت حاصل کی۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں برطانیہ کی شہریت لے لی۔ شہریت ملتے ہی انہوں نے پی آئی اے میں اپنی ملازمت برطانوی شہری کی حثیت سے رجسٹر کروالی جسے لوکل ایمپلائمنٹ کہا جاتا ہے، ملازمت سے جبری مستعفی ہوتے وقت اقبال جاوید باجوہ کی عمر 73 سال سے زیادہ تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کی زیادہ سے زیادہ ریٹائرمنٹ عمر 60 برس ہے، تاہم سابق آرمی چیف کے بھائی کی ملازمت جاری رکھنے کیلئے یہ دعوی کیا گیا کہ برطانوی قوانین کے تحت جب تک کوئی فرد صحت مند ہے ملازمت جاری رکھ سکتا۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈگری جعلی ثابت ہونے کے باوجود اقبال جاوید باجوہ استعفیٰ دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اقبال جاوید باجوہ کو ان کے خاندان کے ذریعے دباؤ ڈال کر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ تاہم جعلی ڈگری کے باوجود سابق آرمی چیف کے بھائی اقبال جاوید باجوہ سے زبردست رعایت برتی گئی۔ استعفی دینے پر اقبال جاوید باجوہ نہ صرف قانونی چارہ جوئی سے بچ گئے بلکہ پی آئی اے سے تمام مالی فوائد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
دوسری جانب پی آئی اے ذرائع نے بتایا کہ جعلی ڈگری اسکینڈل میں ملازمت سے برطرف ہونے والے ملازمین کی تعداد 840 سے زائد ہے جنہیں برطرفی کے بعد ایف آئی اے کے کیسز بھگتنا پڑرہے ہیں، بیشتر کو جیلیں ہوئیں اور انھیں لاکھوں روپے کے عوض ضمانتیں کرانا پڑیں۔ ان متاثرین نے ادارے کے فیصلے کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی، جو ملازمتوں کی بحالی کیلئے اب بھی کوشاں ہیں ، ان میں سے بعض ریٹائر ہو چکے ہیں تا ہم جعلسازی میں ملوث نہ ہونے کے باوجود سزا بھگت رہے ہیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ عارف روحیلہ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پی آئی اے میں جعلی ڈگری اسکینڈل میں کلین چٹ ملنے کے باوجود ان کی ملازمت بحال نہیں کی گئی۔ عارف روحیلہ ان 19 ملازمین و افسران میں شامل ہیں، جنہیں سابق سربراہ ارشد ملک کے حکم پر بننے والی انکوائری کمیٹی اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی ڈگری اسکینڈل سے باہر کرتے ہوئے ملازمت پر بحال کرنے کی سفارش کی تھی ۔ تاہم انہیں اب تک بحال نہیں کیا گیا۔ عارف روحیلہ نے بتایا کہ وہ پی آئی اے میں 1992 میں ڈیلی ویجز ور کر کی حیثیت سے شعبہ انجینئر نگ میں بھرتی ہوئے تھے ، بعد ازاں گریجویشن کے بعد انہیں گروپ فور اور پھر فائیو میں ترقی دے دی گئی ۔ ارشد ملک کے سی ای او بننے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی ڈگری پر ملازمت کرنے والوں کے خلاف سو موٹو لیا۔ تو ان کے خلاف بھی پی آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے برطرف کر دیا، عارف روحیلہ کے مطابق ان پر الزام تھا کہ ان کی ایم اے پارٹ ٹو کی مارکس شیٹ میں ٹمپرنگ کی گئی ہے،اس الزام کے خلاف پی آئی اے کی ایک محکمہ جاتی انکوائری کمیٹی کو بھی حقائق سے آگاہ کیا جس میں ان کی ملازمت اور ترقی کے کسی دستاویزات میں ٹمپرنگ یا جعل سازی ثابت نہ ہوسکی ،کمیٹی نے سفارش کی کہ عارف روحیلہ کو بحال کیا جائے۔ پی آئی اے انتظامیہ نے انہیں بحال نہ کیا تو وہ اپنا کیس سینیٹ کمیٹی میں لے گئے، سینیٹ کی کمیٹی نے بھی تحقیقات مکمل کرنے پر انہیں بحال کرنے کے احکامات دیئے جس پر تا حال عملدرآمد نہیں ہوا، عارف روحیلہ نے بتایا کہ ان سمیت 840 ملازمین کو ایف آئی اے کے کیسز اور بیشتر کو جیلیں بھی بھگتنا پڑیں ، بعض انتقال کر چکے ہیں جبکہ بیشتر عدالتوں میں انصاف کے لیئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ایسے میں پی آئی اے انتظامیہ ملک کے ایک با اثر شخص یعنی سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے بھائی کو جعلی ڈگری ثابت ہونے کے باوجود تمام مراعات کے ساتھ رخصت کر کے سیکڑوں ملازمین کے زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہے۔ دوسری جانب پی آئی اے سے جعلی ڈگری اسکینڈل میں نکالی گئی ایئر ہوسٹس قرۃ العین نے بتایا کہ انہیں پی آئی اے میں جعلی ڈگری اسکینڈل میں نہ صرف نوکری سے برطرف کیا گیا بلکہ ان کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ بھی قائم کیا گیا ، ایف آئی اے کی انکوائری کا سامنا کرنے کے دوران انہیں سخت اذیت اٹھانا پڑی جبکہ ایک روز ایف آئی اے کراچی میں بیان دینے کیلئے بلایا گیا اور وہیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے جیل بھیج دیا گیا، ، میں نے اس جرم میں 26 دن جیل میں گزارے۔ قرۃ امین نے بتایا کہ جعلی ڈگری کیس میں 30 سے زائد خواتین نے کیسز کا سامنا کیا، جیل کائی اور دوسری جانب سابق آرمی چیف کے بھائی ہونے کی وجہ سے ایک ڈپٹی منیجر کوکروڑوں روپے کی مراعات کے ساتھ رخصت کیا گیا، یہ انتظامیہ اور حکومت کا دوہرا معیار ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔