ایف بی آر کے کالے قانون نے پاکستان میں کاروبار کرنا جرم بنادیا

وفاقی حکومت نے ایف بی آر کو گرفتاریوں اور جائیداد کی ضبطگی کے ناقابل یقین وسیع اختیارات دے کر پاکستان میں کاروبار کو ایک جرم بنا دیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں بغیر کسی ٹرائل اور واضح ثبوت کے کاروبار کی بندش، گرفتاری اور جائیداد کو ضبط کرنے کے حوالے سے قانون کی منظوری نے ملک بھر کے تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں میں کھلبلی مچا دی ہے! حکومت فیصلے پر جہاں ایک طرف ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس سراپا احتجاج ہیں وہیں تاجروں اور صنعتکاروں نے تمام بڑے شہروں میں ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے بجٹ 2025-26 میں سیکشن 37AA کے تحت ایف بی آر کے اختیارات میں اضافہ کیا ہے، جس کے تحت ادارے کو کاروبار کی بندش سے لے کر گرفتاری تک کے اختیارات دئیے گئے ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق قانون کی تبدیلی کے بعد اب سیلز ٹیکس ایکٹ کے سیکشن ’37AA کے تحت انکم ٹیکس آفیسرکسی واضع ثبوت، ٹرائل اور کمشنر کی منظوری کے بغیر ہی کسی بھی تاجر یا صنعتکار کے خلاف چھ کروڑ روپے سے بڑے مبینہ ٹیکس فراڈ کا کیس بنا سکتا ہے، اکاونٹ منجمند کر سکتا ہے، ریکارڈ قبضے میں لے سکتا ہے، پراپرٹی کو قبضے میں لے سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کمشنر کی اجازت کے بغیرفوری گرفتار بھی کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قانون کے تحت ہونے والی کارروائی میں ’ملزم پری اریسٹ بیل بھی نہیں کروا سکتا حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 37AA کے خلاف پہلے ہی فیصلہ دے رکھا ہے۔37AA ایف بی آر کی ٹیکس آمدن بڑھانے کا قانون نہیں ہے بلکہ ٹیکس آفیسرز کی آمدن بڑھانے کا قانون ہے۔‘معاشی ماہرین کے مطابق اگرچہ گرفتاری کے فوراً بعد آئی آر او اس حوالے سے تمام حقائق کمشنر کو بتانے کا پابند ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس شخص کو انصاف کیسے ملے گا جس کی عزت سربازار نیلام کر دی گئی ہو۔‘

اس حوالے سے فیڈریشن آف پاکستان چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر ثاقب فیاض منگو نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایف بی آر کو پچھلے سالوں میں بھی بہت زیادہ اختیارات دیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود ایف بی آر ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کو ایک بار پھر وسیع اختیارات دے دئیے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے جو موسمی کاروباری ہیں وہ تو رشوت دے کر ایف بی آر سے ڈیل کر لیں گے لیکن جو اصل کاروباری ہیں وہ کتنی مرتبہ رشوت دیں گے؟ حقیقت میں اس فیصلے سے وہ زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کاروباری حلقوں کی مشاورت کے بغیر قوانین بنانے اورمنظور کرنے سے کاروبار دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ آج کل چیمبرز میں یہ مشاورت زیادہ ہو رہی ہے کہ پاکستان سے کاروبار بیرون ملک کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔‘

حکومت کی جانب سے منظور کردہ قانون کو ہدف تنقید بناتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر میاں ابوذر شاد کا کہنا تھا ’جو جرم ابھی ثابت نہیں ہوا اس پر گرفتاری کا اختیار دے دینا نامناسب ہے۔ گرفتاری کے بعد اگر ٹرائل میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انکم ٹیکس آفیسر کا ٹیکس فراڈ کا دعوی غلط ہے تو گرفتاری سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟ وائٹ کالر کرائم ایک حساس معاملہ ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ٹیکس فراڈ کے شک پر گرفتاری کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مشرف دور میں بھی بزنس کمیونٹی کو ٹیکس کے نام پر جیلوں میں ڈالا گیا تو ملک میں کاروبار تقریباً منجمد ہو گیا تھا، اس مرتبہ بھی غلطی کر دی گئی ہے۔ آج نہیں تو کل حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑے گا۔ حکومت جتنی جلدی اس فیصلے کو واپس لے لے اس کیلئے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ کاروباری حالات جلدی معمول پر آسکیں اورمزید سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جا سکے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ’لوگ ڈرے ہوئے ہیں، وہ یا تو ملک چھوڑجائیں گے یا ایسا کام کریں گے جس میں ٹیکس کا مسئلہ نہ ہو۔ سرکار نے اگر قانون تبدیل نہ کیا تو اگلے ماہ سے ہی ٹیکس آمدن پر اثرات آنا شروع ہو جائیں گے۔‘

جنرل فیض حمید کو سزا سنائے جانے کے بعد عمران کا کیا بنے گا؟

تاہم سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کا اس حکومتی فیصلے بارے کہنا تھا کہ ’حکومت نے بزنس کمیونٹی سے مشاورت کیے بغیر 37AA کا قانون پاس کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 37A کے خلاف فیصلہ دیا تو حکومت 37AA کا قانون لے آئی۔ کیا اب اس کے خلاف پٹیشن کی جائے اور پورا سال کیسز بھگتے جائیں؟ 37AA کالا قانون ہے۔ حکومت یقین دہانی کرواتی رہی کہ بزنس کمیونٹی کے مطالبات مانے جائیں گے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومت نے 37AA کا قانون واپس نہ لیا تو ملک میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہو سکتی ہیں۔ ایسے فیصلوں سے ٹیکس اکٹھا نہیں ہو گا بلکہ اس میں مزید کمی آ سکتی ہے۔

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے بقول ’جو قوانین سرکار بنا رہی ہے اس سے کاروبار بند ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بزنس مین کو سب سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں نئے قوانین بزنس کمیونٹی کی تذلیل کا باعث بن رہے ہیں اور ڈالر ایک مرتبہ پھر ملک سے باہر جانا شروع ہو جائے گا۔ اگر حکومت نے یہ قانون واپس نہ لایا تو آنے والے دنوں میں اسے بہت نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔

Back to top button