ٹرین کے مسافروں کو سرنگ میں یرغمالی بنانے کا پہلا واقعہ

بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس کو کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے حملہ کر کے ٹرین کو مسافروں سمیت سرنگ میں یرغمال بنانے کو پاکستان میں اپنی نوعیت کا ’پہلا واقعہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔تاہم حقیقت میں بلوچستان میں اس سے قبل بھی ٹرینوں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔

مبصرین کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ بلوچ شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔جعفر ایکسپریس پر حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے معاملے پر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ’ٹرین کو اس طرح یرغمال بنانا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے اور اس طرح سٹریجک مقام پر پوری ٹرین کو یرغمال بنانے سے بی ایل اے کی انٹیلی جنس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔‘ مبصرین کے بقول ’ریلوے ٹریک کے ساتھ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹنل بولان میں ہیں، جن کی تعداد 17 ہے اور منگل کو ٹنل نمبر آٹھ میں ٹرین کو یرغمال بنانے کا مقصد ٹرین میں موجود افراد کا رابطہ باہر کی دنیا سے منقطع کرنا تھا، کیوں کہ ٹنل میں فون کے سگنل نہیں آتے۔‘

دوسری جانب پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان میں مختلف کالعدم عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ٹرینوں پر حملے، سڑکوں پر گاڑیوں سے لوگوں کو اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے جان سے مارنے اور بم دھماکوں جیسے واقعات عام ہیں، مگر اس طرح ٹرین پر حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لینا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔‘

بلوچستان میں ٹرینوں پر مسلح حملوں کے حوالے سے مبصرین نے بتایا: ’کچھ عرصہ پہلے تک کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے سڑکوں پر ناکہ بندی کر کے مختلف لوگوں کو شناخت کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اب ان گروپوں نے ٹرینوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ حملے عموماً بلوچ علیحدگی پسند گروہوں یا دیگر مسلح تنظیموں کی طرف سے کیے جاتے ہیں، جو حکومت کے خلاف احتجاج یا علیحدگی کی تحریکوں کا حصہ ہیں اور ان کا مقصد حکومتی اثر و رسوخ کو کمزور کرنا، توجہ حاصل کرنا اور بلوچستان میں اپنے سیاسی مطالبات کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔‘

تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے کے حالیہ حادثے سے قبل بلوچستان میں کب کب ٹرینوں کو نشانہ بنایا گیا ہے؟ مبصرین کے مطابق موجودہ واقعہ سے قبل نہ صرف متاثرہ ٹرین جعفر ایکسپریس پر پہلے بھی کئی بار حملے ہوچکے ہیں بلکہ بلوچستان میں دیگر ٹرینوں پر حملوں کے واقعات بھی سامنے آ تے رہے  ہیں۔

جنوبی ایشیا میں شدت پسندی کے واقعات کا ڈیٹا اکٹھا کرنے والے تھنک ٹینک ’ساؤتھ ایشیا ٹیرارزم پورٹل‘ کے مطابق بلوچستان میں ٹرینوں پر حملے 2005 سے ریکارڈ کیے گئے، مگر ان حملوں میں شدت 2011 کے بعد دیکھی گئی۔

تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق 2005 سے 2017 کے درمیان صوبے میں ٹرینوں پر 64 حملے ہوئے، جن میں 60 اموات اور 239 افراد زخمی ہوئے۔

2006 میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریلوے ٹریکس کو دھماکوں سے نقصان پہنچایا گیا، جس سے کئی ٹرینیں متاثر ہوئیں۔

2008 میں کوئٹہ کے قریب ریلوے لائن کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ایک مسافر ٹرین کو نقصان پہنچا۔

2011 میں بلوچستان کی حدود میں ٹرینوں پر 14 حملے ہوئے۔

اس کے علاوہ 2013 اور 2015 میں کوئٹہ سمیت صوبے کے کئی علاقوں میں ریلوے ٹریکس کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں مسافر بردار اور مال گاڑیوں کو نقصان کے ساتھ متعدد افراد زخمی ہوئے۔

2017 میں مستونگ کے قریب ریلوے ٹریک پر دھماکہ ہوا، جس سے ایک ایکسپریس ٹرین متاثر ہوئی، کم از کم پانچ افراد جان سے گئے اور 16 زخمی ہوئے۔

2019 سے 2023 کے درمیان بلوچستان میں ٹرینوں پر متعدد حملوں کے نتیجے میں ریلوے ٹریکس کو نقصان پہنچایا گیا۔

ستمبر 2024 میں بلوچستان میں بارشوں اور ریلوے ٹریک کو شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنانے کے ساتھ بولان کے علاقے دوزان میں برطانوی دورِ حکومت میں تعمیر ہونے والا ریلوے پل بم دھماکے کے باعث گر گیا تھا، جس سے بلوچستان سے پنجاب اور سندھ کے لیے ٹرین سروس کئی مہینوں تک معطل رہی۔

کیا یرغمال بنائی گئی ٹرین میں سکیورٹی فورسز کے جوان سوار تھے؟

نو نومبر 2024 کو کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر اس وقت خودکش دھماکہ ہوا جب مسافر جعفر ایکسپریس سے پشاور جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ اس خود کش بم دھماکے میں 26 افراد جان سے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ تاہم اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ ایک سکیورٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2024 میں دہشت گردی کے حملوں کی تعداد 2014 یا اس سے قبل کی سکیورٹی صورت حال کے برابر پہنچ گئی ہے۔’پاکستان سکیورٹی رپورٹ 2024‘ کے مطابق پاکستان میں 2024 میں شدت پسندی کے مجموعی طور پر 521 حملے ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 70 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گہا کہ مختلف کالعدم بلوچ باغی گروہوں، خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ یعنی بی ایل ایف کے حملوں میں حیرت انگیز طور پر 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو بلوچستان میں 171 واقعات پر مشتمل تھا۔

Back to top button