کرنسی ایکسچینجز کے باہرموجود ایجنٹس  شہریوں کو کیسے لوٹ رہے ہیں؟

لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں سب سے زیادہ لوٹ مار منی ایکسچینجز کے ارد گرد دیکھنے میں آتی ہے جہاں ایک جانب عوام کو ڈاکوؤں کی جانب سے لوٹ مار کے خدشات لاحق ہوتے ہیں وہیں دوسری جانب  کرنسی ایکسچینجز کے باہر ایجنٹس کی شکلوں میں گھومتے بہروپئے اور نوسرباز بھی عوام کو چونا لگانے سے باز نہیں آتے اگرچہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ نو سربازوں نے عوام کو دھوکہ دینے کے طریقے بھی بدل لئے ہیں۔ تاہم عوام ہمیشہ اپنے حرص اور لالچ کی وجہ سے ہی ان دھوکے بازوں کا نشانہ بنتے ہیں، جہاں کبھی تو انھیں زیادہ قیمت کا جھانسہ دے کر شیشے میں اتارا جاتا ہے اور کبھی کم قیمت پر بیرون ملک کی جعلی کرنسی تھما کر فراڈ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک واردات لاہور کے شہری دانیال بٹ سے بھی ہوئی۔ دانیال بٹ  سعودی ریال پاکستانی روپوں میں تبدیل کروانے کے لیے ایک کرنسی ایکسچینج مرکز پہنچے تو انہیں عجیب و غریب صورت حال سے سامنا کرنا پڑا۔دانیال بٹ کے بقول میں معمول کے مطابق ریال تبدیل کروانے کے لیے اپنے ہی علاقے میں ایک کرنسی ایکسچینج پر پہنچے تو ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ کیا چاہیے، ڈالر؟ تو میں نے کہا کہ نہیں میں تو ریال تبدیل کروانے آیا ہوں۔‘دانیال بٹ کے مطابق اس کے بعد اس شخص نے کہا کہ ’یہ تو آپ کو بہت کم ریٹ دیں گے، آپ میرے ساتھ آئیں۔ وہ اس قدر پراعتماد دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے یہ تمام دکانیں اس کی ہوں۔ ذرا آگے جا کر کہنے لگا کہ آج کل سعودی ریال کی پاکستان میں بہت ڈیمانڈ ہے۔ ایک پارٹی ہے جو ڈبل پیسوں میں ریال خرید رہی ہے۔‘پھر اس نے پوچھا کہ کتنے ریال تبدیل کروانے ہیں تو میں نے کہا فی الحال تو 1000 ریال ہی ہیں۔ اس نے کہا کہ پیسے مجھے دیں، میں اندر سے تبدیل کروا کے آتا ہوں۔ وہ میرے سامنے اندر گیا اور اس کے بعد باہر نہیں نکلا۔‘

کافی دیر انتظار کے بعد جب دانیال بٹ خود دکان کے اندر گئے تو وہ شخص اندر نہیں تھا۔دکان دار کا کہنا تھا کہ یہاں تو ایسا کوئی شخص نہیں آیا جس نے ریال تبدیل کروانے ہوں اور نہ ہی کوئی ایسی سکیم چل رہی ہے۔

اس کے بعد انہوں نے فوری پولیس کو مطلع کیا جس کے بعد پولیس موقعے پہنچی اور معاملے کی چھان بین شروع کر دی۔ اس نامعلوم شخص کی شناخت عبداللہ کے طور پر ہوئی جو کرنسی ایکسچینجز کے باہر ’ذاتی حیثیت میں‘ ایجنٹ کے روپ میں کام کرتا ہے۔تاہم ابھی تک پولیس ملزم کو تلاش کر رہی ہے۔ ملزم کا نام اور تصویر کا پتا لگانے کے علاوہ ابھی تک پولیس کو اس معاملے میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔

پچھلے 20 برس سے کرنسی ایکسچینج کا کام کرنے والے محمد اکبر کہتے ہیں کہ ’نوسربازوں سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی دکانوں میں بڑی بڑی تحریریں لکھ کر لگا رکھی ہیں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں لوگ تو ڈالر میں بڑا فراڈ کرتے ہیں۔ ’ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن میں باہر سے شہریوں نے ڈالر تبدیل کروائے تو ان کو نقلی نوٹ دے دیے گئے۔ شہریوں کو مستند کرنسی ایکسچینجز کے اندر جا کر اپنے نوٹ تبدیل کروانے چاہییں اور اس کی پکی رسید لینی چاہیے۔‘

ماہرین کے مطابق جعلی نوٹ لے کر بیرون ملک سفر کرنے کے انتہائی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اور اس بنیاد پر کئی سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس لئے حج، عمرے، بزنس ٹور یا فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے بیرون ملک سفر سے قبل مقامی جعلی کرنسی سے بچنے کے لیے بیرون ممالک کی کرنسی نہیات احتیاط سے خریدنی چاہیے کیوںکہ پاکستان میں ایسی ورداتیں بھی رپورٹ ہو رہی ہیں کہ پاکستانی کرنسی کے بدلے بیرون ملک کی جعلی کرنسی تھما دی جاتی ہے چونکہ عوام کو اس کی پہچان نہیں ہوتی اس طرح وہ باہر جا کر بڑی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈالر، سعودی ریال، درہم اور دیگر ممالک کی کرنسی کے اصلی نوٹوں کی پہچان کیسے کی جائے۔

کرنسی ماہرین کے مطابق اصلی نوٹ ہمیشہ کرارہ ہوتا ہے۔ جعلی نوٹ نرم ہوتا ہے، جس پر انگلی پھسل جاتی ہے۔ اصلی نوٹ پر کچھ فیچر ابھرے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ تصویر یا نوٹ کی مالیت والا ہندسہ ابھرا ہوا ہوتا ہے۔’اصلی نوٹ گنتے ہوئے کبھی بھی نوٹ کا رنگ نہیں اترتا، جب کہ جعلی نوٹ گنتے ہوئے انگلی پر نشان آ جاتا ہے۔ اصلی نوٹ پر کچھ فیچرز بظاہر مخفی ہوتے ہیں، مگر نوٹ کو روشنی کے طرف کرنے سے وہ نظر آتے ہیں۔’جیسے 100 ڈالر کے نوٹ پر ایک طرف تصویر اور دوسرے طرف عمودی 100 کا ہندسہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ جو نوٹ کو روشنی کی طرف کرنے پر صاف نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر پر دو چمکیلی عمودی پٹیاں ہوتی ہیں۔’ایک پٹی پر عمودی قطار میں 100، 100 کا ہندسہ لکھا ہوتا ہے۔ دوسری تھری ڈی پٹی نوٹ کو حرکت دینے پر چمکتی نظر آتی ہے۔‘

یورو کے اصلی نوٹ کی نشانیوں پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یورو کے اصلی نوٹ پر بنے تمام ڈیزائین واضح، بےداغ اور چمک دار ہوتے ہیں جب کہ جعلی نوٹ پر ڈیزائن مدہم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ نوٹ کے دائیں جانب عمودی تھری ڈی پٹی پر نوٹ کو حرکت دینے سے تصویر نظر آتی ہے، جو جعلی نوٹ میں نظر نہیں آتی اور اصلی نوٹ چھونے سے کھُردرا محسوس ہوگا، جب کہ جعلی نوٹ نرم ہو گا۔

سعودی ریال کے اصلی نوٹ پر بات کرتے ان کا کہنا تھا کہ: ’سعودی ریال کے نوٹ پر دو چمک پٹیاں ہوتی ہیں۔ ایک مخفی جو روشنی کی طرف موڑنے پر نظر آتی اور تصویر کے ساتھ ایک موٹی تھری ڈی پٹی، جس کا اگر سائز چھوٹا ہو تو نوٹ جعلی ہو گا۔’اس کے علاوہ نوٹ کو روشنی کے رخ کرنے پر دوسری جانب مخفی تصویر نظر آتی ہے جو جعلی نوٹ میں نظر نہیں آتی۔

Back to top button