پاکستان میں کریڈٹ کارڈ پر چیزیں سستی نقد ادائیگی پر مہنگی کیوں ملیں گی؟

وفاقی حکومت نے ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈز کے ذریعے خریداری پر مزید مراعات دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ نقد رقم ادا کر کے خریداری کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کیلئے چیزوں کی نقد ادائیگی پر مزید ٹیکسز لگانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس کے بعد آنے والے دنوں میں کارڈز کے ذریعے ادائیگی کرنے والوں وک چیزیں سستی جبکہ نقد رقم دینے والوں کو اشیاء مہنگی ملیں گی

خیال رہے کہ حکومت طویل عرصے سے معیشت کو ڈیجیٹل اور دستاویزی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تھی۔تاہم مالی سال 2025-2024 کے بجٹ میں ایک منفرد حکمتِ عملی اپنائی گئی اور اس مرتبہ دکان داروں کے بجائے صارفین کو ترغیب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔چنانچہ یہ تجویز سامنے آئی کہ جو صارفین کارڈ سے ادائیگی کریں گے اُن پر 18 فیصد کے بجائے صرف پانچ فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔ وفاقی حکومت نے مالی سال 2026-2025 کے بجٹ میں دہرے ٹیکس نظام کو تمام شعبوں تک وسعت دینے پر غورشروع کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس بار پیٹرولیم کے شعبے میں نمایاں تبدیلی متوقع ہے۔ تجویز یہ ہے کہ ملک بھر کے تمام پیٹرول پمپس پر ڈیجیٹل ادائیگی کی سہولت فراہم کرنا لازمی قرار دیا جائے گا۔اس تجویز کے مطابق اگر صارف کارڈ، کیو آر کوڈ یا موبائل ایپ کے ذریعے ادائیگی کرے گا تو وہ معمول کا 18 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرے گا۔

تاہم اگر وہ پٹرول ڈلوانے کے بعد نقد رقم سے ادائیگی کرے گا تو اُسے فی لیٹر دو سے تین روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔ حکام کے مطابق دہرے ٹیکس نظام کا مقصد نقد رقم کے استعمال میں کمی لانا، ٹیکس نظام کو مضبوط بنانا اور معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے۔

فی الحال یہ تجویز فیڈرل بورڈ آف ریوینیو  کے زیرِغور ہے،ایف بی آر چاہتا ہے کہ پیٹرول پمپس پر ادائیگی کے لیے کیو آر کوڈ، ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ اور موبائل والٹ جیسے ڈیجیٹل ذرائع لازمی دستیاب ہوں تاکہ لین دین کا سُراغ لگایا جا سکے۔

صرف پیٹرولیم ہی نہیں، حکومت درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کی طرف سے کی جانے والی نقد خریداریوں پر بھی اضافی دو فیصد جی ایس ٹی لگانے پر غور کر رہی ہے، جبکہ ڈیجیٹل ادائیگی کی صورت میں معمول کا 18 فیصد ٹیکس لاگو رہے گا۔

ذرائع کے مطابق یہ پالیسی ماضی کی ’فائلر‘ اور ’نان فائلر‘ تقسیم کی طرز پر ہے، مگر اس بار چھوٹے اور غیر رسمی کاروبار بھی اس کے دائرے میں آئیں گے۔آنے والے بجٹ میں ہر حجم کے کاروبار کے لیے لازمی قرار دیا جائے گا کہ وہ نقد اور ڈیجیٹل دونوں قسم کی ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرے۔

معاشی ماہرین کے مطابقموجودہ پوائنٹ آف سیل نظام کے برعکس اس بار توجہ سستے اور سادہ ڈیجیٹل ذرائع جیسے کیو آر کوڈ پر ہو گی تاکہ مہنگے آلات کی ضرورت نہ پڑے۔انڈیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اس طرز کے اقدامات سے مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں اور پاکستان بھی اُن کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب متعدد مواقع پر اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ ملک کی 9.3 کھرب روپے کی نقد معیشت کو ڈیجیٹائز کر کے ٹیکس چوری کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس سے قبل مالی سال 2025-2024 کے بجٹ میں حکومتِ پاکستان نے کئی شعبوں میں ڈیجیٹل ادائیگیوں پر عوام کو مُراعات دی تھیں۔سب سے نمایاں شعبہ ریستوران اور فوڈ سروسز کا ہے جہاں ڈیجیٹل ادائیگی کرنے پر صارفین کو نمایاں ٹیکس چُھوٹ دی جا رہی ہے۔

مثال کے طور پر وفاقی حکومت کے تحت ریستوران میں اگر صارف کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ یا موبائل والٹ سے ادائیگی کرتا ہے تو اس پر صرف 5 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے جبکہ نقد ادائیگی پر اس شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح سندھ میں کارڈ سے ادائیگی پر 8 فیصد جبکہ نقد پر 15 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ اس سے صارف کو کھانے پینے جیسی روزمرہ ضروریات میں مالی بچت حاصل ہوتی ہے اور انہیں ڈیجیٹل طریقہ کار اپنانے کی ترغیب ملتی ہے۔

ای کامرس اور آن لائن شاپنگ کے شعبے میں بھی حکومت نے ڈیجیٹل ادائیگیوں پر خصوصی مُراعات رکھی ہیں۔آن لائن خریداری پر بعض اشیا پر ٹیکس کی شرح میں نرمی اور پروموشنل رعایتیں صارفین کو اس طرف راغب کر رہی ہیں۔ اس سے محفوظ، تیز اور ٹریک ایبل لین دین کو فروغ مل رہا ہے۔اس سے نہ صرف کاروبار کو سہولت ملتی ہے بلکہ صارفین کو بھی جدید، معیاری اور رعایتی مصنوعات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔آن لائن ادائیگی پر قطاروں سے نجات، فوری تصدیق اور بعض صورتوں میں اضافی چارجز سے استثنیٰ جیسے فوائد شامل ہیں۔

Back to top button