کیا اگلا بجٹ بھی عوام کو ریلیف کی بجائےصرف تکلیف ہی دے گا؟

پاکستان میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کی آمد آمد ہے، تاہم عوام بجٹ کے حوالے سے مختلف خدشات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے کی افواہیں زیر گردش ہیں وہیں دوسری جانب بعض لوگ بجٹ سے ریلیف کی امیدیں بھی وابستہ کرتے نظر آتے ہیں تاہم معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کے آئندہ وفاقی بجٹ میں عوام کے لیے کچھ خاص نہیں ہو سکتا کیونکہ آئی ایم ایف سے وابستگی کی وجہ سے بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا جبکہ باقی ماندہ رقم کا زیادہ حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی کیلئے مختص کر دیا جائے گا عوام کو بجٹ میں صرف ٹیکس اور تسلیاں ہی ملیں  ۔

خیال رہے کہ پاکستان نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کے لیے تقریباً 19 کھرب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔ جبکہ عوام ہمیشہ کی طرح کسی ریلیف کے شدت سے منتظر ہیں، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جو آئی ایم ایف پر انحصار کرتا ہو، ریلیف کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ زیادہ تر پالیسیاں  آئی ایم ایف  کے زیر اثر بنتی ہیں جو عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں لانے کی بجائے اسے مزید مشکل ہی بناتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان  میں اکثر یہ قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ سب سے زیادہ بجٹ دفاعی شعبے  میں استعمال ہوتا ہے، تاہم سرکاری اعداد و شمار کچھ مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ آدھے سے زائد بجٹ یعنی 9 کھرب روپے سے زائد کی رقم صرف سود کی ادائیگیوں میں چلی جائے گی۔ بجٹ کا دوسرا بڑا حصہ دفاع ہے جس کے لیے آنے والے بجٹ میں 2.5 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ جاری مالی سال میں یہ رقم تقریباً 2.1 کھرب روپے تھی۔حکومت نے نہ صرف اس سال ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے 1 کھرب روپے کرنے کی تجویز دی ہے، جو گزشتہ سال 1.4 کھرب تھا، بلکہ وفاقی تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں بھی بالترتیب 27 فیصد اور 32 فیصد کی نمایاں کٹوتی تجویز کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ راستہ ملک کو مزید انحصار کی طرف لے جائے گا اور عوام یا معیشت کے لیے کسی بہتری کا باعث نہیں بنے گا۔

بجٹ میں بھاری قرض ادائیگی سے متعلق معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کیلئے بڑا حصہ مختص کرنے کی بڑی وجہ ملک کا آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کو شرح سود بڑھانے کا کہتا ہے، جو اس وقت تقریباً 11 فیصد ہے اور یہی شرح سود قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ قومی خزانے پر بڑھا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ ممالک جو آئی ایم ایف کے محتاج نہیں، وہاں شرح سود 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت نے پانی اور بجلی کے شعبے کے بجٹ میں بھی 41 فیصد کمی کی تجویز دی ہے، جو پہلے 104 ارب روپے تھا۔ اسے مزید کم کر دیا گیا ہے جس سے دیا میر بھاشا ڈیم جسیے پانی کے اہم منصوبے متاثر ہونگے موجودہ حالات میں اس منصوبے کی تکمیل میں بیس سال لگ سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ملک کے ہر کونے سے پانی کی قلت اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور عوام کو ان دونوں معاملات میں ریلیف صرف اور صرف بڑے ڈیموں کی تکمیل سے ہی ممکن ہے کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے سستی بجلی صرف پانی کے ذریعے بنائی جاتی ہے۔ تاہم حکومت بڑے آبی منصوبوں کے فنڈز میں ہی کٹوتیاں کرتی دکھائی دیتی ہے۔

کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ  پاکستان  میں بجٹ کی ترجیحات کا محور معاشی ترقی کی بجائے سیاسی وقتی مفادات ہوتے ہیں۔پاکستان میں بجٹ مناسب غور و فکر کے بغیر اور قومی مفاد کو مدنظر رکھے بغیر بنایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجٹ کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ”حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبے بھی عوام کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بنائے جاتے ہیں۔‘‘

Back to top button