ساؤتھ ایشیا کو ممکنہ پاک بھارت جنگ سے کیسے بچایا جا سکتا ہے ؟

معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں نیوکلیئر ہمسائیوں کے مابین کشیدہ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ پاک انڈیا سرد جنگ کی صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی رابطے اور تبادلے مکمل طور پر ختم کر دیے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ویزوں کی بندش، تجارت کے خاتمہ، اور سیاسی تناؤ کے باعث دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بہت ذیادہ بڑھ گئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پاکستانی اداکاروں کو بھارتی فلموں میں کام کرنے سے روکا جا رہا ہے بلکہ پاکستانی آرٹسٹوں کی پینٹنگز بھی ضبط کی جا رہی ہیں، اسکے علاوہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی فلمیں دکھانے پر پہلے سے پابندی عائد ہے اور ان کی کرکٹ ٹیمیں ہمسایہ ملک میں جا کر کوئی بھی ٹورنامنٹ کھیلنے سے انکاری ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال مایوس کن ہے کیونکہ ماضی میں کبھی دونوں ممالک نے اس حد تک پابندیاں عائد نہیں کی تھیں، لیکن اب جب کہ پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر ہو چکا ہے، دونوں حکومتوں کو فوری طور پر باہمی رابطے بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بجائے کہ بیان بازی کے ذریعے دوبارہ سے صورتحال کو کشیدہ کیا جائے جو خطے کو ایک نیوکلیئر جنگ کی جانب لے جا سکتی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ بتاتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ممبئی کے ڈرامے کراچی کے تھیٹروں کی زینت بنتے تھے، لاہور کے مصور نئی دہلی میں اپنی تصاویر کی نمائش کرتے تھے، اور امن کے لیے سرگرم کارکن سرحد پار کر کے فوجیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ لیکن اب، یہ سب ایک خواب سا لگتا ہے۔ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کر کے صورتحال کشیدہ تر کر دی اور دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کردیا۔ اس واقعے کے بعد پاک بھارت ثقافتی رابطوں کی وہ کڑی جو پہلے ہی کمزور تھی، مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔
انڈیا اور پاکستان میں کشیدگی بڑھنے کے باعث نہ صرف ثقافتی وفود کے تبادلے روک دیے گئے بلکہ پاکستان سے علاج کی خاطر انڈیا جانے والے مریضوں کو بھی نکال کر واپس بھیج دیا گیا۔ پاکستانی فنکاروں کی پینٹنگز بھارتی کسٹم حکام نے ضبط کر لیں، پاکستانی اداکار فواد خان کی فلم کو تھیٹرز میں ریلیز کرنے کی اجازت نہ ملی، اور پاکستانی اداکاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارت میں بلاک کر دیے گئے۔ اپریل میں مودی حکومت نے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کو ہدایت جاری کی کہ وہ پاکستانی مواد، حتیٰ کہ مقبول ترین پاکستانی ڈراموں کو بھی دکھانا بند کردیں، جو کبھی سرحد پار دونوں ممالک میں بے حد پسند کیے جاتے تھے۔
فوج کا دروازہ پیٹنے والے عمران خان کو کوئی جواب کیوں نہیں مل رہا ؟
بھارتی اداکارہ اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کی شریک بانی سہاسنی کہتی ہیں کہ پاکستانی ڈراموں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے میں سفارتی مشنوں سے زیادہ کردار ادا کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، جب آپ دوسرے فریق سے ملتے ہیں تو ان کا انسانی چہرہ سامنے آتا ہے، اور برسوں سے پروان چڑھائی گئی نفرت خود بخود پگھلنے لگتی ہے۔ فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی اس حوالے سے کہتی ہیں کہ وہ 1947 کے وقت صرف چار سال کی تھیں جب ان کے والد نے خاندان کو نئی دہلی سے لاہور منتقل کیا تھا۔ سلیمہ نے فیض فیسٹیول کے ذریعے 1980 کی دہائی سے بھارتی فنکاروں جیسے شام بینیگل، کیف عظمی، جاوید اختر اور شبانہ عظمی کو لاہور مدعو کیا، لیکن 2016 سے ان کے بھارت کے دورے بند ہوگئے۔2019 میں ان کے فن پاروں پر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی، اور پھر مکمل پابندی لگادی گئی۔ وہ کہتی ہیں، فن کوئی مہلک چیز نہیں، لیکن اسے بھی منجمد کردیا گیا۔
پاک بھارت کھیلوں کا محاذ، جو کبھی دونوں ممالک کو جوڑنے کا مضبوط ذریعہ تھا، اب خاموش ہے۔ 2013 کے بعد بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے گھر جا کر کوئی کرکٹ میچ نہیں کھیلا۔حال ہی میں جب بھارتی ایتھلیٹ نیرج چوپڑا نے پاکستانی کھلاڑی ارشد ندیم کو بھارت آنے کی دعوت دی تو انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا چوپڑا کو مجبور ہو کر یہ بیان دینا پڑا کہ اب یہ دعوت دینا ممکن نہیں رہا۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ اب جب کہ پاکستان امریکہ کے بھارت کے مابین سیز فائر ہو چکا ہے، دونوں ممالک کی حکومتوں کو فوری طور پر باہمی رابطے بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک آگے بڑھ سکیں۔