آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک: وفاقی بجٹ میں تاخیر کا امکان

پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مابین جاری مزاکرات میں ڈیڈ لاک آنے کے بعد قوی امکان ہے کہ شہباز شریف حکومت اپنے منصوبے کے مطابق 2 جون کو وفاقی بجٹ پیش نہیں کر پائے گی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف وفد مجوزہ پاکستانی بجٹ کے کلیدی نکات سے مطمئن نہیں اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں ریلیف دینے پر بھی امادہ نہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ایف بی آر ٹیکسوں کے وہ اہداف حاصل نہیں کر پایا جن کا اس نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا۔
اپنی تازہ تحریر میں معروف صحافی نصرت جاوید یہ خبر بریک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ جیت کر بھی اقتصادی اعتبار سے اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور سالانہ بجٹ کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان ان دنوں اسی حقیقت کا سامنا کر رہا ہے۔ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے بعد شہباز شریف حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس کی بدولت پاکستان کو دنیا کے حتمی ساہوکار یعنی آئی ایم ایف سے قسطوں میں 7 ارب ڈالرز ملیں گے۔ اس قرض کی آخری قسط پاک بھارت جنگ کے دوران 9 مئی کو منظور ہوئی۔ بھارت اس کی منظوری سے انتہائی ناخوش ہے لہازا گودی میڈیا کے ذریعے الزام لگائے چلے جارہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دہشتگردی پھیلانے کے لئے یہ قسط ادا کی ہے۔
نصرت جاوید کیتے ہیں کہ یہ الزام لگاتے ہوئے کسی بھارتی نے ہمیں یہ بتانے کی زحمت نہ اٹھائی کہ آئی ایم ایف کی اداکردہ رقم کیسے خرچ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کی ترجمان کو ایک پریس کانفرنس کے دوران آئی ایم ایف سے ادا ہوئی رقوم کے استعمال کی بابت ایک لیکچر نما جواب دینا پڑا۔ آئی ایم ایف کسی بھی ملک کے ذخائر زرمبالہ کو مستحکم رکھنے اور دکھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے تاکہ ہم جیسے ملکوں کو جو ابھی خود کفیل نہیں ہوئے اپنی ’’ساکھ‘‘ کی بنیاد پر خود کفالت کی خاطر تشکیل دئیے منصوبوں کے لئے دیگر ملکوں اور اداروں سے قرض لینے میں آسانی ہو۔ آئی ایم ایف کی ادا کردہ رقوم کی ایک پائی بھی مثال کے طورپر اس بلندوبالا مسجد ومدرسے کی تعمیر میں خرچ نہیں ہوئی جسے بھارت نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات میزائل مار کر زمین بوس کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس مسجد سے منسلک عملے کے چند افراد سے زیادہ ان کے اہل خانہ ہی جن کی زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی شہید ہوئے تھے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اپنے اصل منصوبے کے مطابق 2 جون کو شہبازشریف حکومت بجٹ پیش نہیں کر پائے گی کیونکہ آئی ایم ایف سے آیا وفد اس کے کلیدی نکات سے مطمئن نہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ایف بی آر ٹیکسوں کے وہ اہداف حاصل نہیں کر پایا جن کا وعدہ آئی ایم ایف سے ہوا تھا۔ پاک-بھارت تعلقات جنگی حالات میں داخل نہ ہوئے ہوتے تب بھی یہ حقیقت ہمارے لئے فکرمندی کا باعث تھی۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہ کرسکنے کے سبب ایف بی آر کی احمقانہ نااہلی کا بوجھ سب سے زیادہ میرے اور آپ جیسے تنخواہ دار اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا تنخواہ دار طبقہ دنیا کے ان ممالک میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے جہاں خالصتاََ ذہنی صلاحیتوں کی بدولت سیٹھوں سے اپنے ذہنی جثے کے مطابق تنخواہ حاصل کرنا جرم شمار ہوتا ہے جس سے حکومت اپنا حصہ جگاٹیکس کی صورت وصول کرتی ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ نیک اور نرم دل شہباز شریف بارہا اعتراف کرچکے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے کے ساتھ وطن عزیز میں زیادتی ہورہی ہے۔ ان کے بارہا دہرائے اعتراف کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے قوی امید تھی کہ آئندہ بجٹ تنخواہ داروں کے لئے بھاری بھر کم نہ سہی تھوڑی آسانیاں پیدا کرے گا۔ جائیداد کی خرید وفروخت میرا دھندا نہیں مگر گزشتہ بے شمار دہائیوں سے یہ شعبہ پاکستانی معیشت میں رونق لگائے ہوئے تھا۔ غالباََ جائز بنیادوں پر ماہرین معیشت مجھ جیسے اَن پڑھ کو یہ سمجھاتے ہیں کہ زمین کے ٹکڑوں کی فائلوں کی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقلی پائیدار معاشی رونق نہیں لگاتی۔ بسااوقات پراپرٹی کی خریدوفروخت حکومت سے حقیقی آمدنی چھپانے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ الزام یہ بھی تھا کہ چند ’’دہشت گرد‘‘ تنظیموں نے جائیداد کے دھندے کو اپنے عزائم کے حصول کے لئے بھی استعمال کیا۔ اسی باعث عمران حکومت کی دل وجان سے ویری ہونے کی دعوے دار جماعتوں مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے بارہ سے زیادہ قوانین پر غلاموں کی طرح انگوٹھے لگائے تھے اور انہیں ریکارڈ عجلت میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظورکیا تھا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ یہ سب کرنے کے باوجود گزشتہ سال کا بجٹ پیش ہوا تو اس کے نتیجے میں پراپرٹی کا دھندا تقریباََ ٹھپ ہوگیا۔ بے تحاشہ ضرورت مند جنہوں نے زندگی بھر کی بچت سے پانچ سے دس مرلے کے پلاٹ لئے تھے، ان دنوں اشد ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ان پلاٹوں کو اس قیمت پر بھی بیچ نہیں پارہے جس پر انہیں خریدا گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت کے نہایت قریب تصور ہوتے کاروباری دنیا کے چند کامیاب ترین کھلاڑی جائیداد کے دھندے میں تھوڑی رونق بحال کرنے کی قابل عمل تجاویز سوچ چکے ہیں۔ حکومت آئندہ سال کے بجٹ میں جو اب عیدالاضحی کے بعد پیش ہوگا ان تجاویز میں سے چند پر عمل کرنے کو رضا مند تھی۔ لیکن آئی ایم ایف ابھی تک نہ تو اس امر پر رضا مند ہوا ہے کہ تنخواہ داروں کو تھوڑی راحت فراہم کی جائے اور نہ ہی وہ جائیداد کی خرید وفروخت والے دھندے میں نئی روح ڈالنے کو آمادہ ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی معیشت کا حتمی نگہبان ادارہ اصرار کئے جارہا ہے کہ ٹیکس کی صورت ہم اپنے ایف بی آر کی بدولت وہ رقوم جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں جن کا وعدہ آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ بجٹ تیار کرتے ہوئے ہوا تھا۔ وعدے کے مطابق رقوم جمع کرنے میں ناکام رہنے کے باوجود مگر ہم واضح بنیادوں پر مجبور ہیں کہ بھارت کے ساتھ حال ہی میں ہوئی جنگ جیتنے کے بعد بھی اپنے دفاعی بجٹ میں کم ازکم 18فی صد اضافے سے ممکنہ طورپر ایک اور رائونڈ کے لئے تیار ہوں۔ ہماری بقاء ٹھوس رقوم کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔ لیکن ہماری حکومت ابھی تک ان شعبوں اور افراد کی قابل تشفی انداز میں نشاندہی تک نہیں کر پائی ہے جن کے لئے مزید ٹیکس ادا کرنا کامل امن کے حالات میں بھی پاکستان کو خوش حال بنانے کے لئے لازمی ہے۔