جنگوں سے ہمیشہ جرنیلوں کو فائدہ اور عوام کو نقصان کیوں ہوتا ہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ جنگوں کا فائدہ صرف جرنیلوں اور سیاست دانوں کو ہوتا ہے چونکہ جنگیں اشرافیہ اور انکے مفادات کو کو آگے بڑھاتی ہیں جب کہ عوام اور عوامی ایجنڈے کو پیچھے لے جاتی ہیں۔

بی بی سی کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جنگ مختصر ہو یا طویل، سیاست دانوں اور جرنیلوں کو آگے اور عوام کو پیچھے لے جاتی ہے۔ جنگیں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، کمیشن ایجنٹوں اور اسلحے کے سوداگروں کے لیے آکسیجن اور دیگر کروڑوں لوگوں کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہیں۔ کہتے ہیں پہلے زمانے میں جنگ لڑنے کے لیے ہتھیار بنائے جاتے تھے اور اب ہتھیار بیچنے کے لیے جنگیں ایجاد ہوتی ہیں۔ انکا کہنا  ہے کہ اگر آپ ایسے سیاست دان ہیں جسے اقتدار میں رہنے کا تو خبط ہے مگر عوام کو سوائے دلاسے اور جھانسے دینے کے پلے کچھ خاص نہیں، تو کرسی پر بنے رہنے کا سب سے مختصر راستہ اندرونی کشیدگی اور نپا تلا جنگی ماحول برقرار رکھنا ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جنگ کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا دھیان بٹایا جائے، انہیں حب الوطنی، قربانی، قومی غیرت، مادرِ وطن کی ایک ایک انچ زمین کے تحفظ کا چورن بیچا جائے اور مدِمقابل کو نشانِ عبرت بنانے کے نعرے لگاتے ہوئے اپنا کام سیدھا کیا جائے۔ کوئی عقل سے پیدل گر پوچھے کہ تعلیم، صحت، روزگار، چھت، کہنے سُننے کی آزادی سمیت آئینی حقوق کی امید کب تک رکھی جائے؟ اِس احمقانہ مطالبے کا ایک ہی تیر بہدف جواب ہے کہ ملک زندگی اور موت کی کشمکش میں یے اور تمھیں عین اِسی وقت تعلیم اور حقوق کی راگنی سوجھ رہی ہے۔ ابے عقل کے اندھے، ملک رہے گا تو یہ سب ہو گا نا۔ تمھیں تو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس وقت معیشت کا پورا دھارا دفاع کی جانب موڑ دو اور اپنے جیسوں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ کوئی مطالبہ، کوئی خواہش، کوئی حق، کوئی آزادی ملکی سالمیت سے بڑھ کر نہیں۔ ہم یعنی عوام گھاس کھا لیں گے پر جھکیں گے نہیں۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ جنگ چھوٹی ہو یا بڑی، یہ بہت نازک گیم ہے۔ ہاتھ میں رہے تو انعامات و اکرامات و رقبہ جات و مناصب کی بارش لیکن بے قابو ہو جائے تو انفرادی و اجتماعی زوال۔ مثال کے طور پر دیکھیے 1965 اور 71 کی جنگوں میں پاکستان کی شکست کے نتیجے میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان زوال کا شکار ہوئے۔ 1999 کی کارگل جنگ کے بعد جنرل مشرف نے بغاوت کر ڈالی اور نواز شریف کے اقتدار کا سورج نہ صرف غروب ہو گیا بلکہ انہیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ نہ تو میاں صاحب کی دو تہائی اکثریت کچھ کر پائی، نہ آئین کی شق چھ کسی کام آئی، اور نہ ہی میثاقِ جمہوریت دیوار بن سکا۔ اب تو یہ سب چونچلے ماضی کا حصہ ہیں، حال پُرعزم ہے اور مستقبل روشن۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ مطالعہ پاکستان کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایوب خان کی قیادت میں پاک فوج نے 1965 کی جنگ فیصلہ کن طور پر جیت لی تھی۔ تاہم حقیقت میں ایسا نہیں تھا کیونکہ جنگ کا ایک نتیجہ حقائق اور سچ کی گردن زنی ہوتا ہے۔ مگر سوال کرنے والے پوچھتے ہیں کہ یہ کیسی جیت تھی جس کی قیمت کے طور پر صنعتی ترقی پٹڑی سے ایسی اتری کہ پھر ویسی رفتار نہ پکڑ پائی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران جو ایمرجنسی نافذ ہوئی وہ اگلے بیس برس جاری رہی۔ سنہ 1973 کا آئین نافذ ہونے کے 12 برس بعد محمد خان جونیجو کو 1985 میں یہ ایمرجنسی ہٹانا پڑی۔ کچھ سیانے کہتے ہیں کہ سنہ 1971 کی جنگ کے بعد دو تہائی اکثریت سے انتخابات جیتنے والی اندرا گاندھی اگر 1975 میں ایمرجنسی نہ لگاتیں تو بلا رکاوٹ اگلے دو انتخابات تک حکومت کر سکتی تھیں۔ مگر اب انڈیا میں بھی زمانہ بدل گیا ہے۔ ایمر جنسی نافذ کرنے کے بجائے اسے رولر کوسٹر کی شکل دے دی گئی ہے۔

پہلی عالمی جنگ نے آمرانہ اور فسطائی تجربے کو مضبوط کیا۔ مگر دوسری عالمی جنگ کے خوفناک نتائج کی روشنی میں اہلِ مغرب اور جاپان نے تباہی کو جمہوری و معاشی اصلاحات کے سنہرے موقع کے طور پر استعمال کیا اور راکھ سے ترقی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ گرم جنگ کی جگہ سرد جنگ کے تصور نے لے لی۔ اس دوران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جہاں نیٹو اور وارسا پیکٹ وجود میں آئے وہیں یورپی یونین اور جنگِ ویتنام کے اثرات سے سبق حاصل کرتے ہوئے جنوب مشرقی ایشیا میں آسیان کے اقتصادی مثالیے نے جنم لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے اسلحے کی کمر توڑ دوڑ بھلے دوڑی ہو مگر اس دوڑ کو ایک اور براہِ راست جنگ میں بدلنے کے بجائے نادان ریاستوں کو شطرنجی مہرہ بنا کے اپنے اپنے قومی و بین الاقوامی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان طاقتوں نے اسلحے کی منڈی پر قبضہ ضرور برقرار رکھا مگر اپنی ہی بندوق بارِ دگر ایک دوسرے پر خالی کرنے کے بجائے بیوقوف ممالک کو فروخت کی اور پھر ان سے اپنا ہی کام نکلوایا اور نکلوا رہی ہیں۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ ان مثالوں سے انڈیا اور پاکستان 78 برس میں بھی سبق کیوں نہیں سیکھ پائے۔ وہ اب تک دو عالمی جنگوں کی وہی اترن پہننے پر کیوں بضد ہیں جو ان جنگوں کے مرکزی کرداروں نے 80 برس پہلے اتار پھینکی۔ شاید ہم پڑھے لکھے جنوبی ایشیائی بھی اس ناخواندہ نفسیات کے مسلسل اسیر ہیں کہ دشمن داری مرد کا زیور ہے۔ دشمنی بھی وہ جو دوسرے کی ناک رگڑوانے کے چکر میں نسل در نسل اپنے ہی بچے نگلتی رہے۔ بھلے ناک اونچی رکھنے اور دوسرے کی کاٹنے کے لیے زمین، گھر اور نسلوں کا مستقبل ہی کیوں نہ گروی رکھوانا پڑ جائے۔ وسعت کے مطابق اس خطے نے 1947 سے اب تک خون ہی خون دیکھا۔ لاشوں پر سرحدیں وجود میں آ گئیں پھر بھی سکون نہیں۔ دریا تقسیم ہو گئے پھر بھی ٹھنڈ نہیں پڑی۔ اپنے آپ سے بھی جنگ اور ایک دوسرے سے بھی جنگ۔ دراصل یہ ہے اب تک کی کمائی ہے ہماری تین نسلوں کی۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ لگاتار جنگوں سے ڈسی دنیا سمجھتی ہے کہ جنگ قومی مقاصد حاصل کرنے کا آخری حربہ ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس ہمارے خطے میں جنگ کی صنعت بنیادی مسائل کی اکسیر سمجھی جاتی ہے۔ ایک سیانے چینی دانشور نے کہا تھا کہ بہترین جنگ وہ ہے جو چھیڑے بغیر جیت لی جائے۔ آج کی چینی قیادت اسی اصول پر عمل پیرا ہے لہذا ہمیں بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔۔۔۔

Back to top button