فیض اور عمران نے مل کر 9مئی کی سازش کیسے رچائی؟

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے تفتیش کے دوران 9 مئی سے پہلے اور فوری بعد جن 48 سیاست دانوں سے رابطوں کے شواہد ملے ہیں ان میں سے کچھ نے تصدیق کی ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف اپنے سابقہ باس عمران خان کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر عمران کو گرفتار کیا گیا تو رد عمل کے طور پر جی ایچ کیو سمیت ملک بھر میں اہم ترین فوجی تنصیبات پر حملے کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ فیض حمید کو گرفتار تو ٹاپ سٹی سکینڈل میں کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انہیں 9 مئی کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں بھی ملوث پایا گیا۔ عسکری ذرائع کا دعوی ہے کہ اگر فیض حمید کو 9 مئی کے ہنگاموں کی منصوبہ بندی میں سزا دی جاتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا بچنا بھی ناممکن ہے چونکہ موصوف جو کچھ بھی کر رہے تھے وہ عمران کے مشورے اور مرضی سے کر رہے تھے۔

دوسری جانب معروف صحافی انصار عباسی نے دعوی کیا ہے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید گرفتاری سے پہلے 50 کے قریب سیاستدانوں سے رابطے میں تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ انکا کہنا یے کہ فیض حمید نے ایسا نیٹ ورک بنا رکھا تھا جس کے ذریعے وہ اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے انہیں مشورے بھی دے رہے تھے۔

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید نے آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ تو لے لی تھی لیکن وہ پس پردہ ریٹائرڈ فوجی افسران کے گروپ کے ساتھ مل کر فوج میں بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس کا بنیادی مقصد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ان کے عہدے سے ہٹانا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے مجاز نہیں تھے چونکہ آرمی ایکٹ کے تحت کسی بھیبفوجی افسر کو ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے پانچ سال تک کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی پابندی پر سختی سے عمل درامد کرنا ہوتا ہے۔ اس سے قبل یہ پابندی دو سال کیلئے تھی لیکن 2023ء میں آرمی ایکٹ میں کی گئی ایک ترمیم کے تحت یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ جو لوگ حساس ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے فوج میں تعینات رہیں، ملازم رہیں، معاون رہیں، یا کسی ذمہ داری یا حساس ڈیوٹی پر مامور رہیں؛ وہ ریٹائرمنٹ، استعفے، ڈسچارج کیے جانے، برطرفی یا ملازمت سے فارغ کیے جانے کی تاریخ سے پانچ سال تک کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔

بتایا جاتا ہے کہ فیض حمید کے گرفتاری کے بعد چار درجن سینئر سیاسی دانوں کی ایک فہرست ترتیب دی گئی جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور عمران خان سے 9 مئی کے واقعات سے پہلے اور بعد میں رابطے میں تھے۔ ان روابط کی نوعیت، براہ راست یا بالواسطہ، تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ان تقیقات کے دوران چند سیاست دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ فیض حمید واقعی فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور یہ طے تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں اس منصوبے پر لازمی عمل درامد کیا جائے گا۔

بتایا جاتا یے کہ گرفتاری سے قبل جنرل فیض حمید کو فوجی حکام کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد قابل اعتراض سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ خبردار کیا گیا تھا لیکن وہ باز نہیں آئے تھے۔ تاہم، فوجی حکام کے ہاتھوں جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد عمران خان نے اپنے چیف منصوبہ صاحب سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا۔ جنرل فیض کی گرفتاری کے چند روز بعد اڈیالہ جیل میں عمران خان کے ساتھ ملاقات کرنے والی اُن کی ماہرین قانون کی ٹیم کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کی گرفتاری فوج کا اندرونی معاملہ ہے؛ پارٹی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

سینئر وکیل انتظار پنجوتھا نے تب راولپنڈی جیل میں ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے حوالے سے کہا تھا کہ جنرل فیض کی گرفتاری خالصتاً فوج کا اندرونی معاملہ ہے اور پی ٹی آئی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ عمران خان کا جنرل فیض حمید سے کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا۔ یہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے نواز شریف کے ساتھ معاہدہ کیا اور جنرل فیض کا متبادل لایا گیا۔
انتظار پنجوتھا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے تجویز دی تھی کہ اگر جنرل فیض کی گرفتاری کا تعلق 9؍ مئی کے واقعات سے ہے اور ان میں ان کا کوئی کردار ہے تو یہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا اچھا موقع ہے اور اُس دن کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لائی جائے۔

Back to top button