مقبولیت کے نشے میں عمران نے سب کچھ کیسے تباہ اور برباد کیا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کی اصل وجہ ان کی قابلیت یا ان کا کردار نہیں بلکہ لوگوں کی فوج مخالف سوچ ہے، ورنہ جس شخص کا رول ماڈل طالبان اور عثمان بزدار ہوں، اس کی سوچ اور وژن کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

اپنے تازہ تجزیے میں رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ جب عوام میں فوج کی مسلسل سیاسی مداخلت کے خلاف غصہ بڑھا تو عمران خان نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ موصوف ملک کے پہلے وزیراعظم تھے جنہیں پارلیمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالا، انکی ناکام گورننس کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں اپنی حکومت ختم ہونے پر دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ وہ فارغ ہو گئے ورنہ انکے پاس تو عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ عمران خان کی ناکام گورننس کا سارا بوجھ شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے اپنے سر لے لیا تھا اور آج بھی اسی بوجھ کو اٹھا کر چل رہے ہیں۔

رؤف کلاسرا عمران خان کے دور اقتدار میں انکی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ اس دور میں 18 ضمنی الیکشن ہوئے اور انکی تحریک انصاف 17 ضمنی الیکشن ہاری۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ خان کو 2018 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ تاہم اقتدار سے نکلنے کے بعد فوج اور نون لیگ کی نالائقی کو خان نے کیش کرایا اور زیرو سے ہیرو بن گئے۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ پاپولر لیڈرز نے اپنے ملکوں کو برباد کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے اور عمران خان بھی ایک ایسے ہی لیڈر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنی عوامی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک اور قوم کیلئے بہت کچھ کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے اقتدار میں آ کر اپنے سیاسی مخالفیں کو کچلنے کا راستہ چنا۔ خان نے اپوزیشن کو جیل میں ڈالا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے پاس بھی سعودی‘ روسی اور چینی حکمرانوں جیسے اختیارات ہوں تاکہ وہ مخالفوں کو پھانسیاں لگا سکیں۔ چونکہ تب کے آرمی چیف جنرل قبر جاوید باجوا نے اپنے عہدے میں توسیع لینا تھی لہذا انہوں نے 2018 کے الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کرواتے ہوئے عمران خان کو وزیراعظم بنوا دیا جس کے بعد جمہوریت کا بستر گول ہو گیا۔ "میں نے تجھے چن لیا، تو بھی مجھے چن” والی کہانی مکمل ہونے کے بعد جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ملک سنبھال لیا جبکہ خان صاحب اپنی مقبولیت کے زعم میں عثمان بزدار‘ محمود خان اور بشری گوگی گینگ کی لوٹ مار کا دفاع کرتے رہے۔ اس نام نہاد پاپولر وزیراعظم نے سعودی عرب‘ امریکہ‘ چین‘ اور برطانیہ سے لڑائیاں مول لیں۔ خان نے دوست ممالک کو ناراض کیا۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ خان نے بشری بی بی کے ایما پر بزدار نامی جوکر کو پنجاب کے عوام پر مسلط کرتے ہوئے انکی سیاسی بصیرت کا مذاق اڑایا۔ حد یہ کہ موصوف نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے قومی اسمبلی بھی توڑ ڈالی تا کہ وہ مزید پاپولر ہو سکیں۔ لوگوں کو جذباتی نعروں سے اکساتے ہوئے عمران خان نے آخری حد بھی پار کر لی اور 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کروا دئیے۔ یوں موصوف نے فوج کو ایک مرتبہ پھر یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ سارا سسٹم لپیٹ دے۔ آج اگر پاکستان پر فوج حاوی ہے تو اس میں سب سے بڑا ہاتھ خان کا اپنا ہے، ورنہ سانحہ 9 مئی 2023 سے پہلے فوج پوری طرح بیک فٹ پر جا چکی تھی۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ عمران خان سے پہلے نواز شریف کو بھی ایک پاپولر عوامی لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کے ادوار میں پارلیمنٹ کی دو ٹکے کی بھی اوقات نہیں تھی۔ دونوں چھ چھ ماہ تک پارلیمنٹ نہیں جاتے تھے کیونکہ وہ پاپولر تھے۔ انکی پارٹیز کے اندر بھی کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان سے سوال پوچھ سکتے کیونکہ یہ دونوں مقبولیت کے نشے میں مخمور ہو کر سیاسی آمر بن چکے تھے۔ جو بھی اپنی پارٹی میں اپنی قیادت کے اس رویے کے خلاف آواز بلند کرتا، اسے اگلے دن اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ مختصر یہ کہ اگر نواز شریف اور عمران اپنی مقبولیت کے زعم پر قابو رکھتے تو پاکستان آج جمہوری طور پر بہت آگے جا چکا ہوتا۔

رؤف کلاسرا کے مطابق پاپولر لیڈر ایک سٹیج پر پہنچ کر کلٹ؍ دیوتا اور بھگوان بن جاتا ہے جسکے پیروکار اسے پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر اس کے کسی فیصلے پر تنقید کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا اور یوں جمہوریت کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ہٹلر بھی پاپولر تھا لیکن اس نے جرمنی کو جنگ عظیم دوم میں مروا دیا۔ جاپان کا بادشاہ ہیرو ہوٹو بھی پاپولر تھا۔ امریکی فضائی اڈے پرل ہاربر Pearl Harbour پر حملہ اس کا ایک پاپولر فیصلہ تھا۔ لیکن جوابی کارروائی میں امریکہ نے دو بموں سے دو جاپانی شہر تباہ کرتے ہوئے ہزاروں شہری مار دئیے۔ اسی طرح یوکرین کا صدر زیلنسکی بھی ہینڈسم اور پاپولر تھا لیکن اس نے روس کیساتھ جنگ میں لاکھوں لوگ مروا دیے اور پورا ملک تباہ کروا لیا۔ نریندر مودی بھی بھارت میں بہت پاپولر ہیں۔ وہ بھارت کو ہندو اور مسلم نفرت بھڑکا کر پوری دنیا کو نیوکلیئر جنگ کے دہانے تک لے آئے۔

رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ سے بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں جب پاپولر لیڈرز اپنی مقبولیت کے زعم میں غلط فیصلے کرتے ہوئے اپنے ملک اور قوم کے لیے تباہی اور بربادی لائے۔ عمران خان بھی ایسے ہی ایک پاپولر لیڈر ہیں جو نہ صرف ملک اور قوم کے لیے تباہی کا باعث بنے بلکہ خود کو بھی تباہ کر لیا۔

Back to top button