بھارتی فلم ساز میرا نائر کا بیٹا ممدانی نیویارک میں کیسے چھا گیا ؟

بہت کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ نیویارک کے میئر کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی نامزدگی کا مشکل ترین پرائمری الیکشن جیتنے والے مسلم امیدوار ظہران ممدانی ایک معروف بھارتی فلم ساز اور ہدایت کارہ میرا نائیر کے صاحبزادے ہیں۔ میرا نائر نے ساؤتھ ایشیا سے جڑے موضوعات پر کئی خوبصورت انگلش فلمیں بھی بنائی ہیں۔ ظہران ممدانی کے والد کا تعلق گجرات سے تھا، مگر وہ یوگنڈا کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ظہران کے نام کے ساتھ ممدانی ان کے والد کی نسبت ہے۔
ظہران ممدانی اپنے والدین کیساتھ کافی عرصہ قبل امریکہ پہنچ کر وہاں سیٹل ہو گئے تھے۔ لیکن اپنی جڑوں سے ان کا تعلق جڑا رہا اور آج بھی ہے۔ ظہران ممدانی کو نہ صرف گجراتی اور پنجابی زبانیں بولنا آتی ہیں بلکہ وہ بہت اچھی اردو بھی بول لیتے ہیں، حال ہی میں ان کی الیکشن مہم کے دوران سوشل میڈیا پر ڈھیروں ایسے کلپس وائرل ہوئے جن میں ممدانی اچھی اردو اور ہندی بولتے نظر آئے۔
ظہران ممدانی کی اہلیہ رما دواجی شامی عرب ہیں، ان کا نکاح دوبئی میں ہوا۔ رما دواجی نے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی ہے، وہ پینٹر اور اینی میشن آرٹسٹ ہیں اور اہم امریکی جرائد کے لیے کام کر چکی ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عامر خاکوانی ظہران ممدانی کے حوالے سے لکھی گئی تحریر میں بتاتے ہیں کہ انکا مسلمان باپ اور ہندو ماں کے بطن سے پیدا ہونا یا ان کی ایشیائی یا انڈین بیک گراؤنڈ زیادہ اہم نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی امریکی سیاست میں ایسے کئی لوگ اوپر آئے تھے۔ ممدانی کی شخصیت کا حیران کن اور دلچسپ پہلو ان کا صدر ٹرمپ، وزیراعظم نیتن یاہو اور نریندر مودی کا ناقد ہونا ہے۔ انکے جرأت مندانہ سیاسی موقف اور سوشلسٹ ٹائپ سیاسی ایجنڈے نے نیویارک کے نوجوانوں کو ان کا گرویدہ کر دیا ہے۔
عامر خاکوانی بتاتے ہیں کہ ظہران ممدانی بہت کھل کر پرو فلسطین سیاست کرتے ہیں، وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بھی اکثر بات کرتے ہیں، وہ غزہ میں ہونے والے مصائب پر آواز اٹھاتے ہیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور نریندرا مودی کو ظالم اور مجرم قرار دیتے ہیں۔ اپنی حالیہ الیکشن مہم کے دوران ممدانی نے ان تینوں کو خوب رگڑا دیا جس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ بھی کیا۔ ممدانی کی جیت کی تپش وائٹ ہاؤس کے مکین صدر ٹرمپ نے بھی محسوس کی ہے اور نیویارک کے باسیوں کو یہ دھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر انہوں نے ممدانی کو حتمی الیکشن میں مئیر نیویارک بننے کے لیے ووٹ دیے تو وہ نیویارک شہر کی فیڈرل فنڈنگ بند کر دیں گے۔
ظہران ممدانی غزہ کی جنگ میں اسرائیلی مظالم پر کڑی تنقید کے باوجود ارب پتی یہودیوں کے شہر نیویارک کی میئرشپ کے لیے ڈیمو کریٹ پارٹی کا امیدوار بن چکا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نیویارک میں انڈین نژاد ووٹرز خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں، اور انکی اچھی خاصی بڑی پاکٹ ہے، لیکن ممدانی بی جے پی اور نریندرا مودی کے شدید ناقد ہیں۔ وہ وزیر اعظم مودی کو گجرات کا قصاب کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسی وجہ سے بی جے پی کا حلقہ بھی ظہران ممدانی کو قبول نہیں کرتا بلکہ ان میں سے بعض ممدانی کو انڈیا سے زیادہ پاکستانی امیدوار کہہ کر پکارتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ظہران کا میئر نیو یارک کا الیکشن جیتنا حالیہ پرائمری الیکشن کے بعد اتنا مشکل نہیں رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیویارک شہر میں ڈیموکریٹس کا ووٹ بینک خاصا بڑا ہے۔ روایتی طور پر پچھلے پندرہ برسوں سے یہاں سے گورنر اور سینیٹرز کے علاوہ ہاؤس کی زیادہ تر نشستیں بھی ڈیموکریٹ پارٹی ہی جیتتی آئی ہے۔ نیویارک کیا موجودہ میئر بھی ڈیموکریٹ ہے، سابق گورنر اور موجودہ گورنر بھی ڈیموکریٹ، دونوں سینیٹر بھی ڈیموکریٹ جبکہ دو تہائی سے زیادہ یہاں کے کانگریس مین بھی ڈیموکریٹس ہیں۔ اس لیے میئر کے الیکشن کے لیے کسی ڈیموکریٹ امیدوار کے جیتنے کے امکانات ری پبلکن کی نسبت کچھ زیادہ ہیں۔
عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ امریکہ کی مجموعی سیاست نہ سہی لیکن امریکی سیاست کے ایک گوشے، یعنی نیویارک کی سیاست کے حوالے سے لگتا ہے کہ ایک بار پھر کچھ نیا، انوکھا، اور اچھوتا ہونے جا رہا ہے۔ ظہران ممدانی نے نیویارک کے میئر کے انتخاب کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی پرائمری جیت کر سفید بالوں والے پرانے امریکی سیاست دانوں کو ایک بڑا سرپرائز دیا ہے۔ سال پہلے تک کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کیے بہت سے لوگ انگشت بدنداں ہیں کہ کیا واقعی ظہران ممدانی نیویارک کا اگلا میئر بن جائے گا؟ ری پبلکن پارٹی کے لوگوں کے لیے تو یہ واقعی ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تو جھنجھلا کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک طنزیہ پوسٹ بھی داغ دی۔ٹرمپ کے حامیوں نے تلملا کر میرا نائر کے بیٹے کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ لیکن ٹرمپ جیسے لوگوں کی مخالفت دراصل ظہران ممدانی کو نیشنل لیول کا لیڈر بنا رہی ہے۔
مخصوص نشستوں کے فیصلے سے PPP اور JUI کی اہمیت کم کیوں ہوئی؟
ظہران ممدانی نے اپنی الیکشن مہم میں عوامی ویلفیئر کا جو انقلابی ایجنڈا پیش کیا ہے، اس پر بہت سے لوگ حیران ہیں کہ کیپیٹل ازم کے گڑھ امریکہ میں ایک سوشلسٹ سیاسی پلان کیسے دیا جا سکتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ظہران ممدانی نے ایسا کیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ ٹاپ امیدوار بنے ہیں۔