اسرائیل اور ایران کی جنگ پاکستانیوں کوکیوں بھگتناپڑگئی؟

ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کشیدہ ہوتی نظر آ رہی ہے۔جہاں یہ جنگ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک اردن، مصر، لبنان اور شام پر اثر انداز ہو رہی ہے، وہیں ایران کے ہمسایہ ممالک افغانستان، ترکمانستان، عراق اور پاکستان میں بھی اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔

دفاعی ماہرین کے مطابق ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ سے پاکستان پر ہونے والے اثرات کا انحصار تنازعے کے طویل ہونے سے ہے۔اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی آئندہ چند روز میں ختم ہو جاتی ہے تو اس کا پاکستان کے اوپر اتنا اثر نہیں پڑے گا۔’لیکن اگر یہ لڑائی لمبے عرصے تک چلتی ہے اور اسرائیل ایران میں رجیم کی تبدیلی کی جانب جاتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور کئی محاذوں پر پاکستان کے لیے چیلنجز سامنے آ سکتے ہیں۔‘ ایسی صورت میں سفارتی سطح پر پاکستان کے اوپر کچھ ممالک کا دباؤ آ سکتا ہے کہ وہ اس لڑائی میں ایران کے خلاف جائے جبکہ پاکستان میں کچھ حلقوں سے دباؤ ہو سکتا ہے کہ وہ ساری لڑائی کے دوران ایران کا ساتھ دیں۔اس صورتحال میں پاکستان پھنس سکتا ہے۔

دوسری جانب معاشی ماہرین کے مطابق پاک اسرائیل تنازعے کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں بھی مزید بڑھ سکتی ہیں۔‘یہ پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں ہو گی کیونکہ اس اضافے سے پاکستان کو مہنگائی پر قابو پانا ہو گا، جو بہت مشکل ہو گا۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ  ’ایران چونکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہے لہٰذا صورتحال مزید کشیدہ ہونے کی صورت میں ذرائع آمد و رفت اور اشیا کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران جانے والے پاکستانی زائرین بھی متاثر ہوں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کی بندش کی صورت میں بحری جہازوں کی آمد و رفت محدود ہو گی، جس سے تیل کی ترسیل کم ہو جائے گی اور یہ صورت حال پاکستان میں مہنگائی کی وجہ بن سکتی ہے۔‘ یہ کشیدگی پاکستان کی بحری تجارت کو متاثر کر سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے پاکستان میں ایرانی مصنوعات کی درآمد پر نمایاں اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو ایرانی اشیا جیسا کہ پیٹرول، چاکلیٹس، کوکنگ آئل، بسکٹس، خشک میوہ جات، الیکٹرانکس وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں، وہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی دکانداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایرانی بادام، پستہ اور کھجوروں سمیت خشک میوہ جات کی بڑی ڈیمانڈ ہے تاہم  اسرائیل ایران کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے اب ایران سے میوہ جات درآمد کرنا مشکل ہو جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ پہلے سے جو مال منگوایا ہوا ہے، وہ بھی سرحد پر ہی رک چکا ہے، اب یہ کشیدگی کب تک جاری رہے گی اس حوالے سے ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ’تاہم اس سے بہت سے پاکستانی متاثر ہونگےکیونکہ پاکستان میں ایرانی مصنوعات کے خریدار بڑی تعداد میں موجود ہیں، اور کشیدگی بڑھنے کی صورت میں جب اشیاء کی درآمدات نہیں ہو پائیں گی تو بہت سے لوگوں کےکاروبارٹھپ ہو جائیں گے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو انہیں مجبوراً دوسرے ممالک سے مہنگا مال منگوانا پڑے گا یا پھر کشیدگی ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ایرانی خشک میوہ جات پاکستان میں خاصے مقبول ہیں اور ان کی عدم دستیابی سے مقامی مارکیٹ میں قلت اور قیمتوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے، مگر شکر ہے کہ یہ کشیدگی سیزن میں شروع نہیں ہوئی، ورنہ ہمارا روزگار بہت بڑی طرح متاثر ہوتا۔

دوسری جانب ایرانی الیکٹرانکس آئٹمز سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ان کازیادہ تر سامان ایرانی بارڈر سے آتا ہے، اور اب جو کشیدگی ہے اس کی وجہ سے نہ صرف رسد متاثر ہوئی ہے۔ اگر حالات خراب رہے تو کاروبار کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ پاکستانی مارکیٹ میں ایرانی الیکٹرانکس کا ایک مخصوص حصہ ہے جو براہِ راست درآمدات پر منحصر ہے۔انہوں نے بتایاکہ پیٹرول، خشک میوہ جات اور الیکٹرانکس کے علاوہ ایرانی کوکنگ آئل، چاکلیٹس، بسکٹس اور گھریلو استعمال کی دیگر ایرانی اشیا بھی پاکستان کی مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں، اور مارکیٹ میں ان مصنوعات کی بڑی ڈیمانڈ بھی ہے۔ اس لیے ایران سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر آنے والی ان مصنوعات کی سپلائی چین بھی موجودہ کشیدگی سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔اس کشیدگی کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہونے سے چھوٹے پاکستانی تاجروں کے کاروبار ٹھپ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر صورتحال یوں ہی برقرار رہی تو ایرانی اشیا مارکیٹ سے غائب ہو جائیں گی یا پھر ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی، جس سے بڑی تعداد میں پاکستانی عوام ضرور متاثر ہوگی کیونکہ ایرانی مصنوعات پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں سستی ملتی ہیں، جو چیز پاکستان میں 200 روپے کی ہے، وہی ایرانی چیز گاہک کو 100 سے 150 روپے میں بآسانی مل جاتی ہے۔ اس لیے عام صارفین جو ایرانی مصنوعات کو ان کی قیمت اور معیار کی وجہ سے ترجیح دیتے ہیں، انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Back to top button