جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کرانے سےانکار،عمران مزید مشکل  میں کیوں پڑگئے؟

 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام کا سامنا کرنے والے عمران خان خود کو بے گناہ اور معصوم ثابت کرنے کا بڑا موقع گنوا دیا۔ لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے  بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ سے انکار کو ٹرائل سے بچنے کی کوشش قرار دے دیا۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پولیس حکام کی جانب سے عمران خان کو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے منصفانہ طور پر دو موقع دئیے گئے لیکن ان کی ضد اور مسلسل انکار کے باعث کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکا۔عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عام ملزم ٹیسٹ سے انکار نہیں کر سکتا، لیکن بانی پی ٹی آئی نے دونوں مواقع ضائع کیے۔اب عدالت کے پاس ایسا کوئی اختیار یا مشینری نہیں جس سے زبردستی ٹیسٹ کروایا جا سکے۔ اس لئے تیسرا موقع دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ عدالت کو مثبت نتیجے کی امید نہیں رہی۔

عدالت نے واضح کیا کہ بانی پی ٹی آئی کو خود کو معصوم ثابت کرنے کے 2 مواقع دیے تھے۔تاہم عمران خان نے وہ مواقع ضائع کر دئیے۔ عدالت یہ قانونی نکتہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ تفتیش کیسے مکمل ہوگی جب ملزم ہی تعاون نہ کرے۔ تین صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے عدم تعاون ظاہر کرتا ہے کہ وہ تفتیشی عمل میں شامل ہونے سے اجتناب برت رہے ہیں۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے  تفتیشی افسران کو تکنیکی بنیادوں پر تفتیش مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ 9 مئی کے فسادات سے متعلق 12 مقدمات کیلئے پراسیکیوشن کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک اور فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کے لیے باقاعدہ درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر عدالت نے جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ اور فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ یعنی چہرے اور آواز کے تجزیے والا ٹیسٹ کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔

تاہم دوسری جانب عمران خان کا ساتھ دینے والی وکلاء برادری کا ماننا ہے کہ ایسے غیر ضروری ٹیسٹ کرانے کی اجازت عمران خان کو رسوا کرنے اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ عمران کے وکیل سلمان صفدر کے مطابق ایسے مقدمات میں اس نوعیت کے ٹیسٹ کروانے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ایسے ٹیسٹ نہ صرف غیر معتبر ہوتےہیں بلکہ ان کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے، اور دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں ایسے ٹیسٹ کروانے کا مطلب یہ ہے کہ استغاثہ کے پاس اپنے الزامات کے حق میں کوئی ثبوت موجود نہیں لہازا وہ برقی مشینوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘

ایسے میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا ماضی میں جھوٹ پکڑنے کے مشینی ٹیسٹ کی بنیاد پر کسی کو سزا ہوئی ہے؟ عمران کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا ہے کہ آج تک کسی کو ایسے ٹیسٹوں کی بنیاد پر سزا نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ ٹیسٹ صرف ان مقدمات میں کیے جاتے ہیں جہاں کوئی ثبوت موجود نہ ہو اور صرف ایک ہی شخص دستیاب ہو جو کسی خاص صورتحال کی وضاحت کر سکتا ہو، یعنی وہی شخص جس پر الزام ہے۔انہوں نے کہا کہ ”یہ ٹیسٹ آج بھی دنیا بھر میں بہت کم قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس نہ تو وہ مہارت ہے اور نہ ہی وہ جدید سہولیات اور آلات، جو ایسے ٹیسٹوں کے لیے درکار ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام باتیں غیر متعلقہ ہیں کیونکہ ان ٹیسٹوں کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مقصد ہے، سوائے اس کے کہ یہ انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک اور کوشش ہے۔

یاد رہے کہ اس وقت عمران خان جیل میں قید ہیں کیونکہ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ایک مقدمے میں چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسی کیس میں سات سال قید کی سزا دی گئی۔ یہ مقدمہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈز کی رقم اور عمران خان کے  القادر  یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ ان پر نو مئی کے فسادات کے دوران ریاستی اداروں پر حملوں کی سازش کا الزام بھی عائد ہے۔ اس سے قبل جنوری میں ان کے خلاف تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئی تھیں، جن کا تعلق ریاستی تحائف کی فروخت، ریاستی راز افشا کرنے اور غیر قانونی نکاح سے تھا، تاہم یہ تمام سزائیں یا تو کالعدم قرار دی جا چکی ہیں یا معطل کر دی گئی ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کو القادر کیس اور نو مئی کے مقدمات میں ضمانت مل جاتی ہے، تو وہ جیل سے باہر آ سکتے ہیں اگر ریاست ان کے خلاف مزید مقدمات درج نہ کرے کیونکہ نو مئی سے متعلق اکیس مقدمات میں پہلے ہی عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے۔

Back to top button