عمران اور فیض حمید نامی فوجی اثاثے فوج کا بوجھ کیسے بنے؟

ایک جانب عمران خان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں ملٹری کورٹ میں گھسیٹنے کے لیے جنرل فیض حمید کو انکے خلاف وعدہ معاف گواہ بنایا جائے گا اور دوسرے طرف وہ کورٹ مارشل کا شکار سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو قوم کا اثاثہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں ماضی کے یہ دونوں قومی اثاثے اب ایک قومی بوجھ بن چکے ہیں جنہیں اب ریاست دشمن اور بدمعاش عناصر قرار دیا جا رہا ہے۔ جنرل حمید گل سے لے کر جنرل احمد شجاع پاشا تک اور پھر جنرل ظہیر الاسلام سے لے کر جنرل فیض حمید تک تمام آئی ایس آئی چیفس نے پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اسکا مداوہ یہی ہے کہ ان سب کا بھی کورٹ مارشل کیا جائے اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ ائندہ کوئی وردی والا ان کے راستے پر چلنے کی جرات نہ کرے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید اس نظام کی پیداوار ہیں جس کی بنیاد جنرل ایوب خان نے رکھی اور پھر جنرل یحیی خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف نے اسے پروان چڑھایا۔ اگر پہلا مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب خان کا کورٹ مارشل کر دیا جاتا تو آج فیض حمید کے کورٹ مارشل کی نوبت نہ آتی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی آج بھی فیض حمید کو اسکے مکروہ کردار کے باوجود قوم کا اثاثہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ماضی میں عمران خان بھی انہی کا اثاثہ تھے جنہوں نے فیض حمید جیسے کردار پیدا کیے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے یہ دونوں اثاثے آج ملک دشمن اور بوجھ قرار دیے جا رہے ہیں۔ مظہر کہتے ہیں کہ کاش اصغر خان کیس میں جنرل مرزا اسلم بیگ کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہی عمل ہو جاتا اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی سے پیسہ لینے والوں کو سزا ہو جاتی۔ بانی پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے مظہر عباس کہتے ہیں کہ خان صاحب، کبھی آپ جنرل مشرف کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور پھر اسے سیاسی غلطی کہتے ہوئے معذرت کر لیتے ہیں، کبھی آپ جنرل باجوہ سے متاثر ہو کر انہیں قوم کا باپ قرار دیتے ہیں اور کبھی انہیں سازشی اور غدار قرار دیتے ہیں ہیں۔ اب آپ ایک جانب فیض حمید کو "ڈس اون” کرتے ہیں اور دوسری جانب انہیں اثاثہ بھی قرار دیتے ہیں۔

جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ISI ٹائپ متوازی نیٹ ورک چلاتے رہے

مظہر عباس کے مطابق ہماری بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہم سیاسی جماعتیں بنا ہی نہ پائے، رہی سہی کسر سیاست میں کاروبار کو لا کر کی گئی۔ اگر صرف 2008ء سے 2024ء تک کی جمہوریت کا جائزہ لیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ پہلے آصف علی زرداری نے جنرل کیانی کو تین سال کیلئے توسیع دی۔ پھر 2013ء میں نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے اور پہلی بار پر امن طریقہ سے اقتدار کی منتقلی ہوئی۔ ایسے میں کچھ امید تھی کہ ہم کسی مثبت سمت میں چل پڑے ہیں مگر عمران خان نے نواز شریف پر دھاندھلی کا الزام لگا کر چار انتخابی حلقے کھولنے کی ڈیمانڈ کرتے ہوئے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تو بجائے وزیر اعظم مسئلے کو خود حل کرتے انہوں نےجنرل راحیل شریف کو آگے کر دیا کہ وہ دھرنا ختم کروائیں حالانکہ پوری اپوزیشن پارلیمنٹ میں ان کے ساتھ تھی کیونکہ پی ٹی آئی والوں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم بات پھر بھی جوڈیشل کمیشن بنا کر حل ہوئی کیونکہ راحیل شریف نے عمران خان اور طاہر القادری سے ملاقاتوں کے باوجود نواز حکومت ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا دور۔ سال 2017 میں عمران خان، جنرل باجوہ، فیض حمید اور ثاقب نثار نے مل کر نواز شریف کو پانامہ لیکس میں سزا دلوانا کر نا اہل کروایا اور 2018 کے الیکشن میں خان کو وزیراعظم بنوا دیا گیا۔ ایسا کرنے سے سیاسی نظام اور کمزور ہوا۔

مظہر عباس کے مطابق ہمارے سیاست دانوں کا مسئلہ یہی ہے کہ اگر کسی عمل سے میری حکومت بن رہی ہے اور دوسرے کی ختم ہو رہی ہے تو سب کچھ قومی مفاد میں قرار دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ بعد میں خود عمران کی حکومت گرانے کیلئے ہوا اور اس بار ریاست کے اندر ریاست کے عمل کو عدم اعتماد کی تحریک کا نام دیا گیا۔ ساری لڑائی ایک فائل سے شروع ہوئی اور دوسری فائل پر ختم ہو گئی۔ 9 مئی کا ڈراپ سین کیا اور کیسے ہو گا اس کا انتظار ہے۔ مگر جنرل فیض حمید اور چند دوسرے افسران کا احتساب یا عمران اور فیض کیسز کےاختتام سے، مسئلہ حل نہیں ہو گا جب تک ادارہ جاتی طور پر یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ اب نہ کوئی پروجیکٹ لایا جائے گا یا ختم کیا جائے گا۔ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھیں بس اس کو ریاست کی سمت سمجھیں۔ اگر اس سیاسی بے یقینی کو مستقل طور پر ختم کرنا ہے۔

Back to top button