ٹرمپ اور عاصم ملاقات نے عمران کی امیدوں پر پانی کیسے پھیرا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ آخر کار وہی ہوا جو ہونا تھا، امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران عمران خان کی رہائی تو دور کی بات، موصوف کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ یوں اڈیالہ جیل میں بند خان کی آخری امید بھی نا امیدی میں بدل گئی ہے۔

اپنے تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں عاشقان عمران خان کو دیوانوں کی طرح سمجھاتا رہا کہ صدر ٹرمپ سے پاکستان میں ’’اصل جمہوریت‘‘ کی بحالی کے لئے اپنے قائد کی رہائی یقینی بنانے کی توقع نہ باندھیں۔ لیکن مجھے رعونت سے یہ بتایا جاتا رہا کہ جو عاشقان اپنے محبوب کی رہائی کے لئے متحرک ہیں وہ امریکہ کے سیاسی نظام اور اس پر اثرورسوخ کی حامل قوتوں اور افراد کو مجھ دو ٹکے کے صحافی سے کہیں زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ’’دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت‘‘ ہونے کے ناطے امریکہ ویسے بھی بنیادی انسانی حقوق کا حتمی محافظ ہے۔ وہ عدالتی نظام کی خودمختاری بھی یقینی دیکھنا چاہتا ہے۔

نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ جب میں امریکہ کی ’’جمہوریت‘‘ سے محبت کی مبینہ داستانیں سن کر اُکتاجاتا تو وطن عزیز کی تاریخ یاد دلانے کو مجبور ہوجاتا۔ 1950کی دہائی سے چلنے والی داستان جنرل مشرف کے زمانے میں صدر بش کے ساتھ ’’جگری دوستی‘‘ کی صورت ہمارے سامنے آئی تھی۔ صدر ٹرمپ ویسے بھی وکھری ٹائپ کا شخص ہے۔ اسے  جمہوری اصول نہیں بلکہ جنرل عاصم منیر جیسے طاقتور لوگ پسند آتے ہیں۔ اپنے پچھلے دور اقتدار میں ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر کی دلجوئی میں مصروف رہے۔ موصوف  ’’سول اداروں کی بالادستی‘‘ کے اتنے حامی میں کہ حال ہی میں لاس اینجلس شہر میں ہوئے نسلی فسادات پر قابو پانے کے لئے انہوں نے گورنر کی رائے کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے فوجی رضا کاروں کو وہاں تعینات کردیا۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر فسادات نہ رکے تو وہ امریکی فوج کے طاقتور ترین میرین دستوں کو بھی شہر میں امن وامان بحال کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔۔

لہذا نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ایسے لیڈر سے پاکستان میں ’’سول اداروں کی بالادستی‘‘ کی توقع رکھنا عمران خان اور ان کے حامیوں کی خام خیالی تھی۔ لیکن اپنے قائد کے عشق میں گرفتار یوتھیے یہ بنیادی حقائق سمجھنے سے انکاری رہے۔ امریکی صدر نے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں دوپہر کے کھانے پر بلایا۔ امریکی صدر کی جانب سے کسی بھی ملک کی فوج کے سربراہ کے اعزاز میں ایسا کھانا کبھی ریکارڈ پر نہیں آیا۔

پاکستان کے جن فوجی سربراہوں سے امریکی صدور جپھیاں ڈالتے رہے ہیں وہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح سربراہ مملکت بھی شمار ہوتے تھے۔ ان سے ملاقات درحقیقت امریکی صدر کی اپنے ہم منصب سے ملاقات تصور ہوتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ اپنے ہی ملک کی روایات اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے عاصم منیر کے ساتھ محض فوٹو بنوانے کے لئے ہیلو ہائے نہیں کی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خاص مہمان کو وائٹ ہائوس کے کیبنٹ روم میں کھانے کی میز پر بلایا جہاں اس کے قومی سلامتی امور کے مشیر کے علاوہ امریکی فوج کے اہم عہد دار بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

نصرت جاوید کے بقول اس ملاقات کو کچھ ’’سیانے‘‘ ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ کے تناظر میں رکھ کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس امکان کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا کہ کھانے کی میز پر ہوئی گفتگو کے دوران ایران کا ذکر بھی ہر صورت ہوا ہوگا۔ کھانے کے بعد ٹرمپ نے اس امکان کی یہ کہہ کر تصدیق کی کہ ’’پاکستانی ایران کو امریکہ سے کہیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں‘‘۔

نصرت بتاتے ہیں کہ یہ کہنے کے ساتھ ہی اس نے بین السطور یہ وضاحت بھی کردی کہ پروٹوکول کی تمام روایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستانی فوج کے سربراہ کو کھانے کی دعوت پر کیوں بلایا گیا۔ ٹرمپ نے روانی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ رکوانے کے لئے اسکے معاونین پاکستان اور بھارت کے جن فیصلہ سازوں سے مسلسل رابطے میں تھے ان میں سے سب سے معقول ومثبت رویہ عاصم منیر نے اختیار کیا۔ عاصم منیرکی ’’معقولیت‘‘ نے ٹرمپ جیسے اناپرست کو مودی کے رویے کا تنقیدی جائز لینے کو مجبور کیا۔

دراصل صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ کینیڈا جاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم چند لمحوں کے لئے واشنگٹن رکے اور وائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے ملاقات کرے۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ اگر اس نے امریکی صدر کی دعوت قبول کرلی تو ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے مابین دائمی امن کے حصول کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہے گا۔ ثالثی کو غچہ دینے کے لئے مودی نے ’’اہم مصروفیات‘‘ کے بہانے واشنگٹن آنے سے معذرت کرلی۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ مودی کا انکار ٹرمپ نے اپنی توہین تصور کیا۔ موصوف نے بدلہ لینے کے لئے سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام کردیا۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگوں نے یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھی ہے کہ مودی کے انکار سے ناراض ہو کر ٹرمپ عین اسی وقت کینیڈا سے امریکہ واپسی کے لئے جہاز میں بیٹھے جب اس ملک میں مودی کا طیارہ لینڈ ہورہا تھا۔ ظاہر ہم یہ سمجھے کہ ٹرمپ ایران کے بارے میں کوئی ہنگامی فیصلہ لینے کے لئے جی سیون کی کانفرنس چھوڑ کر وطن لوٹ رہے ہیں۔ موصوف کی کینیڈا سے ’’اچانک روانگی‘‘ کو مودی کی کینیڈس آمد کے تناظر میں دیکھ نہیں پائے۔ پاکستان ویسے بھی تنہا ملک ہے جس کا ذکر ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنی 4 مارچ کی تقریر کرتے ہوئے شاندار انداز میں ذکر کیا تھا۔ اسکی بنیادی وجہ پاکستان کی جانب سے داعش کے ایک مطلوب دہشت گرد کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کرنا تھی۔

اسرائیل نے ایرانی سپریم لیڈر پر حملہ کیا تو پھر کیا ہوگا ؟

نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں کہ پاک فضائیہ کے ہاتھوں بھارتی رافیل تیاروں کی تباہی کے بعد مودی نے ٹرمپ سے رابطہ کیا تو پاکستان جنگ بندی پر آمادہ ہو گیا، لیکن انڈیا آج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اسے امریکی صدر نے سیز فائر پر قائل کیا تھا۔ دوسری جانب انڈیا کے برعکس پاکستان کھلے دل سے امریکی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے سراہ رہا ہے۔ امریکی صدر کی عاصم منیر کو کھانے کی دعوت اس تناظر میں ’’تھینک یو‘‘ کا اظہار تھی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں امریکہ کے ساتھ مختلف الجہتی تعلقات کو گہرا اور دیرپا بنانے کے لئے ہماری سیاسی وعسکری قیادت کو باہم مل کر ایک مؤثر حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو پاک بھارت جنگ رکوانے پر نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

Back to top button