ٹرمپ اور جنرل عاصم کی ملاقات نے مودی اور عمران کے خواب کیسے توڑے؟

پاک بھارت جنگ بندی کے بعد ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات سے جہاں بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے وہیں دوسری جانب پاکستان میں پی ٹی آئی پر بھی لرزہ طاری ہے۔ ایک طرف بھارت میں ٹرمپ سے دوستی کا دم بھرنے والے وزیر اعظم مودی کو تنقید کا سامنا ہے وہیں دوسری طرف آرمی چیف اور امریکی صدر کی ظہرانے پر ہونے والی ملاقات سے ٹرمپ سے رہائی کی امیدیں لگائے بیٹھے یوتھیوں کے بھی تمام خواب کرچی کرچی ہو چکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد بہت سے پی ٹی آئی رہنما عمران خان کی رہائی کی امیدیں لگائے ہوئے تھے جبکہ امریکا میں بھی کئی لابیز متحرک تھیں کہ صدر ٹرمپ پاکستانی سیاست میں مداخلت کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف عمرانڈو رہنماؤں کی خواہشات نما قیاس آرائیاں اور دعوے تحلیل ہو گئے بلکہ معاملہ ہی بالکل الٹ ہو گیا۔ یوتھیے جس ٹرمپ سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے اس نے نہ صرف پاکستان کی موجودہ قیادت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا بلکہ امریکا اور پاکستان نے آنے والے دنوں میں بہت سے شعبوں میں شراکت داری کو بڑھانے کی بھی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔
مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات مزید مستحکم ہوتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور اس کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے کیونکہ خطے میں پاکستان ہی ایسا ملک ہے جو موجودہ صورتحال میں سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی میں کمی کیلئے کردار ادا کر سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے بعد دنیا کی نظریں اب پاکستان پر ہیں۔ اس ھواقلے سے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ موجودہ حالات میںپاکستان ایران کے معاملے میں کہاں کھڑا ہوگا؟ جب امریکا پاکستان کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو موجودہ صورتحال میں پاکستان کیا فیصلہ کرے گا؟
مبصرین کے مطابق ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد پاکستان کا ردعمل سب کیلئے حیران کن ہے، اگرچہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو ایران کی جانب سے مذمت نہیں کی گئی تھی، صرف کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا گیا تھا، مگر پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد جو ردعمل دیا اس نے دنیا کو حیران کر دیا، پاکستان نے اپنے سب سے بڑے فورم یعنی پارلیمان ایران پر اسرائیلی حملے کے خلاف قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کیں، صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے ملکی اور عالمی فورمز پر اتنا بڑھ چڑھ کر ایران کو سپورٹ کیا، پاکستان نے اقوام متحدہ کے فورم پر بھی ایران کا بھرپور ساتھ دیا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اسرائیلی اقدامات کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پاکستان نے ایران کو سپورٹ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ جوہری مسئلے کے پر امن سفارتی حل کیلئے مذاکراتی عمل کا حصہ تھا، یہ پیغام ایران تک بڑے واضح انداز میں پہنچا اور ایران کی پارلیمان میں پاکستان شکریہ کے نعرے لگے۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کے اس ریاستی سطح کے مؤقف کے بعد ایک چیز واضح ہو جانی چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان پہلے واضح پوزیشن لے چکا ہے، ایران پاکستان کا برادر اسلامی اور ہمسایہ ملک ہے جبکہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوطی کی جانب جا چکے ہیں، امریکا اس جنگ میں کودتا دکھائی دے رہا ہے، اگرچہ پاکستان کیلئے صورتحال مشکل ہے مگر اس نے اصولی مؤقف اپناتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملے کی کھل کر نہ صرف مذمت کی بلکہ ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے کو اس کا حق بھی قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے بقول ایران بارے پاکستان کے دوٹوک مؤقف کے باوجود فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے دورۂ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ کا انہیں خصوصی طور پر ظہرانے پر مدعو کرنا عالمی سطح پر سفارتی اور دفاعی میدان میں بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے، یہ ملاقات بہت سی وجوہات کی بنا پر مرکزِ نگاہ ہے، فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر پاکستانی تاریخ کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اس کپیسٹی میں وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کی، ان کے ساتھ کوئی سویلین قیادت نہیں تھی۔امریکی صدر اور ان کے کابینہ ارکان کے ساتھ فیلڈ مارشل کی ملاقات دو طرفہ تعلقات اور شراکت داری کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے، اس سے قبل فوجی سربراہان کی واشنگٹن میں ملٹری ٹو ملٹری سطح پر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں مگر پہلی مرتبہ اس نوعیت کی ملاقات میں پروٹوکول تبدیل کیا گیا ہے، یہ صورتحال خطے میں امن و استحکام کیلئے امریکا کے پاکستان کی عسکری قیادت پر بڑھتے ہوئے اعتماد اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ذریعے ایران اسرائیل جنگ بندی ختم کروانے اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا خواہشمند ہے تاہم دیکھنا ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان اس حوالے سے کیا کردار ادا کرتا ہے۔