آئی ایم ایف کا تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرحوں میں کمی پر اعتراض

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کی جانب سے پاکستان میں 700ارب روپے کےمزید ٹیکسز کی وصولی کیلئے مختلف اقدامات پر غور شروع کردیا ہے۔
پاکستان اورآئی ایم ایف آئندہ مالی سال 2025-26 کےبجٹ میں اضافی 700 ارب روپے حاصل کرنے کے لئےٹیکس اور نفاذ کے اقدامات پر غورکر رہے ہیں، 2 جون کو پارلیمنٹ میں 2025-26 کے بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت نے آئی ایم ایف سے تنخواہ دار طبقے،تمباکو اور مشروبات کے شعبوں کے لیے ٹیکسوں میں اصلاحات (ریشنلائزیشن) کی درخواست کی ہے۔
آئی ایم ایف نےتنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرحوں میں کمی پر اعتراض اٹھایا ہے اور اگر 0.2 ملین سے 0.4 ملین روپے ماہانہ آمدنی والےمتوسط طبقے کے لیے شرحوں کو کم کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں متوقع زیادہ ریونیو کے بارے میں پوچھا ہے۔
سالانہ منصوبہ بندی رابطہ کمیٹی (اے پی سی سی) کا اجلاس 26 مئی (پیر) کو متوقع بجٹ کے لیے میکرو اکنامک فریم ورک اورترقیاتی بجٹ کی قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کو سفارش کرنے کے لیے منعقد ہوگا۔
تمباکو کے شعبےمیں، (سگریٹ کے پیکیٹ کی ) کم از کم قانونی قیمت (ایم ایل پی) جو فی الحال 162.25 روپے فی پیکٹ ہے، کو بڑھانے کا امکان ہےکیونکہ اس وقت 80 فیصد سے زائد برانڈز ایم ایل پی سے کم یا قدرے زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہے ہیں لہٰذا، ایک آپشن یہ ہےکہ موجودہ دو درجوں اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی شرحوں میں تبدیلی کیے بغیر ایم ایل پی میں اضافہ کیا جائے۔
پاکستان کی حمایت کرنے پر بھارت نے ترکیے سے تجارتی تعلقات معطل کر دیے
وزارت خزانہ اورایف بی آر نے آئندہ بجٹ کے لیے 14307ارب روپے کے سالانہ ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف پیش کیا ہے تاہم، برائے نام نمو کی بنیاد پراختلافات کےباعث آئی ایم ایف اور پاکستانی فریق دونوں ریونیو اکٹھا کرنے کے ہدف کے اعداد و شمار پر متفق نہیں ہو سکے۔برائے نام نمو کےتخمینوں میں فرق کی وجہ سے 300ارب روپے کا فرق پایا جاتا ہے۔
حکومت نےپیش گوئی کی ہے کہ برائے نام نمو کے نتیجے میں 13556ارب روپے حاصل ہوں گے، لیکن آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ ایف بی آر 13200ارب روپے سےزیادہ اکٹھا نہیں کر سکےگا،جس کی وجہ سے تخمینوں میں 300 ارب روپے سے زیادہ کا فرق پیدا ہو گیا ہے۔
اگر ایف بی آر کے 14307 ارب روپے کے ٹیکس ہدف اور 13556 ارب روپے کی بنیادی وصولی پر اتفاق ہو جاتا ہے، تو حکومت کو اضافی ٹیکسیشن اقدامات اور مؤثر نفاذ کے ذریعے 700 ارب روپے اکٹھے کرنے ہوں گے۔ نفاذ کے حوالے سے، غیر عمل شدہ تمباکو کےلیےگرین لیف تھریشنگ (جی ایل ٹی) پرایڈوانس ٹیکس کی ادائیگی کی نگرانی ایک ممکنہ ریونیو کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔
آئندہ بجٹ میں کم ازکم قانونی قیمت (ایم ایل پی) میں اضافے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ تمباکو کی صنعت کو کم از کم قانونی قیمت کی مسلسل خلاف ورزی کےپیش نظرایک اہم چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ کم از کم قانونی قیمت سے کم یا قدرے زیادہ قیمت پر غیر قانونی سگریٹ برانڈز کی بہتات کی وجہ سےمزید سنگین ہو گیا ہے، جو صحت کے سنگین خطرات اور معاشی نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستان میں اسمگل شدہ اور ٹیکس چوری شدہ سگریٹوں کا معاشی اثر بہت گہرا ہے، قانونی سگریٹ کی صنعت کا حصہ سکڑنے سے،حکومت کی تمباکو ٹیکسوں سے حاصل ہونےوالی آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جو تقریباً 300 ارب روپے سالانہ ہے۔
صحت کےنقطہ نظر سے، سگریٹوں کی بڑھتی ہوئی دستیابی اور سستی سگریٹ نوشی کی شرحوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان کو پہلےہی تمباکو کے استعمال سے صحت کے ایک اہم بوجھ کا سامنا ہے، جہاں سالانہ 100,000سے زائد اموات تمباکو سےمتعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا پھیلاؤ خاص طور پر تشویشناک ہے، کیونکہ کم عمری میں شروعات طویل مدتی لت اور اس سے منسلک صحت کی پیچیدگیوں کے امکان کو بڑھاتی ہے۔ ٹی ٹی ایس اور لازمی تصویری صحت کی وارننگ (جی ایچ ڈبلیوز) کے نفاذ کےباوجود،عمل درآمد کمزور ہے۔
مشروبات کے شعبے میں ٹیکس کی شرحوں میں کمی پر بات چیت جاری ہے، لیکن آئی ایم ایف نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر اس شعبے میں ریفنڈز پیدا ہوئے توایف بی آر ان سے کیسے نمٹے گا۔ ایف بی آر کسی بھی شعبے میں ریفنڈز پیدا کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتا۔
جمعہ کے روز ترکی سےآئی ایم ایف کی ٹیم نے بلوچستان کی صوبائی حکومت اوروفاقی حکومت کے بعض اخراجات سے متعلق ایک ورچوئل اجلاس میں شرکت کی۔اپریل میں بھی کرنٹ اکاونٹ سرپلس رہا،اسٹیٹ بینک آف پاکستان کےمطابق اپریل کے مہینے میں کرنٹ اکاؤنٹ ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس رہا۔