بھارتی دباؤ ناکام، پاکستان کی تجارت کا تسلسل برقرار

بھارت کی جانب سے پاکستانی مال بردار جہازوں پر اپنی بندرگاہوں کے استعمال پر عائد پابندی مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی۔ پاکستانی شپنگ کمپنیوں نے متبادل راستے اور حکمت عملی اپنا کر تجارتی روانی کو برقرار رکھا، جس کے باعث بھارت کا دباؤ مؤثر ثابت نہ ہو سکا۔
شپنگ انڈسٹری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بھارت کی جانب سے پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کو متاثر کرنے کی کوشش تھی، لیکن اس کا عملی اثر محدود رہا۔ یاد رہے کہ بھارت نے 2 مئی کو ان بحری جہازوں پر پابندی لگائی تھی جو پاکستان سے سامان لے کر آ رہے تھے یا پاکستان جا رہے تھے، اور انہیں بھارتی بندرگاہوں یا آبی حدود میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ بھارت نے اپنے فوجی آپریشن ’سندور‘ کے چند روز بعد کیا، جو پاکستان کے فوری اور مؤثر جواب کے نتیجے میں صرف چار دن میں ختم ہو گیا۔
ابتدائی طور پر بھارت کا ہدف پاکستان کی تجارتی سپلائی لائن کو متاثر کرنا تھا، تاہم شپنگ کمپنیوں نے فوری حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے پاکستانی سامان کو الگ کر دیا اور بھارتی بندرگاہوں پر انحصار ختم کر دیا۔
البتہ، درآمد کنندگان نے بتایا کہ اس پابندی کے نتیجے میں شپنگ کا وقت بڑھ گیا ہے اور کرایے بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی کے مطابق، بڑے بحری جہاز اب پاکستان نہیں آ رہے، جس کے باعث درآمدات میں 30 سے 50 دن کی تاخیر ہو رہی ہے۔ اب درآمد کنندگان کو فیڈر ویسلز پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، جس سے لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
برآمد کنندگان نے بھی بتایا کہ بھارتی اقدام کے بعد شپنگ اور انشورنس کی لاگت بڑھی ہے، تاہم مجموعی برآمدات پر اس کا اثر محدود رہا۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کے برآمد کنندہ عامر عزیز نے کہا کہ برآمدات زیادہ متاثر نہیں ہوئیں، صرف انشورنس اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ شپنگ پہلے ہی مہنگی ہو چکی تھی۔
پاکستان کی برآمدات بڑی حد تک درآمد شدہ خام مال پر انحصار رکھتی ہیں، اور حکومت کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر بچانے کے لیے درآمدات پر سخت کنٹرول کے باعث سپلائی چین میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ملکی معیشت پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
ٹیکس نظام میں 662 ارب کا خسارہ، ایف بی آر کی غفلت بے نقاب
اس کے باوجود، پاکستان شپ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل سید طاہر حسین نے اس تاثر کو رد کیا کہ بڑے بحری جہاز پاکستانی بندرگاہوں پر آنا بند کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اور پورٹ قاسم پر اب بھی بڑے جہاز لنگر انداز ہو رہے ہیں، جبکہ فیڈر ویسلز بھی 6 سے 8 ہزار کنٹینرز لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جو پاکستان کی موجودہ تجارتی ضروریات سے زیادہ ہے۔
پاکستان-بھارت تجارت کی موجودہ صورتحال:
پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ تجارتی روابط 2019 سے معطل ہیں۔ 2018 میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 2.41 ارب ڈالر تھا، جو 2024 میں گھٹ کر صرف 1.20 ارب ڈالر رہ گیا۔
2019 میں پاکستان کی بھارت کو برآمدات 54 کروڑ 75 لاکھ ڈالر تھیں، جو 2024 میں محض 4 لاکھ 80 ہزار ڈالر پر آ گئیں۔
تاہم، غیر رسمی تجارت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت کی پاکستان کو غیر رسمی برآمدات کا سالانہ تخمینہ 10 ارب ڈالر ہے، جو دبئی، کولمبو اور سنگاپور کی بندرگاہوں کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں۔
بھارت سے غیر رسمی طور پر پاکستان کو ادویات، پیٹرولیم مصنوعات، پلاسٹک، ربڑ، نامیاتی کیمیکلز، رنگ، سبزیاں، مصالحے، چائے، کافی، ڈیری مصنوعات اور اناج برآمد کیے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان کی بھارت کو اہم برآمدات میں تانبا، شیشہ، نامیاتی کیمیکلز، گندھک، پھل، میوے اور تیل دار بیج شامل ہیں۔