بھارت کی ڈرونز مشقیں شروع، پاکستان بھی میدان میں آ گیا

پاکستان کے ساتھ حالیہ چار روزہ جنگ میں شکست کھانے کے بعد بھارتی فوجی قیادت نے اگلے ماہ اپنے ڈرونز اور اینٹی ڈرون سسٹمز کی جانچ اور ٹیسٹنگ کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپنا فضائی دفاع پاکستان کے مقابلے میں مزیر مضبوط بنایا جا سکے۔ یہ بھارتی فوجی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی ڈرون مشقیں ہوں گی جنکی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی اپنی ڈرون صلاحیت مزید بہتر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک اعلیٰ بھارتی فوجی افسر نے بتایا کہ یہ مشقیں پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ کے پس منظر میں کی جا رہی ہیں۔ اس جنگ میں دونوں نیوکلیئر ہمسائیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بڑی تعداد میں بغیر پائلٹس کے ڈرونز استعمال کیے گئے تھے۔ مئی میں ہونے والی جنگ کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک نے بہتر سے بہتر ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں تیز کر دی ہیں جسے اب دفاعی ماہرین ڈرون اسلحے کی دوڑ قرار دے رہے ہیں۔
پاک بھارت جنگ کے بعد ملکی دفاع پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے والے دونوں ممالک نے ڈرون ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ جہاں ایکطرف پاکستان نے چین اور ترکی سے جدید ترین ڈرونز خریدنے کا فیصلہ کیا ہے وہیں بھارت نے آئندہ دو سال کے دوران مقامی ڈرون انڈسٹری میں 47کروڑ ڈالرز خرچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ پاک بھارت افواج کئی دہائیوں سے جاری جھڑپوں کے دوران جدید لڑاکا طیارے، روایتی میزائل اور توپ خانہ استعمال کرتی آئی ہیں، تاہم مئی 2025 میں چار دن کی پاک بھارت جنگ کے دوران پہلی بار نئی دہلی اور اسلام آباد نے ایک دوسرے کے خلاف وسیع پیمانے پر بغیر پائلٹ کے طیارے یعنی ڈرونز استعمال کیے تھے۔
اس جنگ کے بعد سے دونوں ممالک جنگی جہازوں، میزائلز اور توپ خانے کو چھوڑ کر ڈرون ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے پیمانے کے ڈرون حملے عملے کو خطرے میں ڈالے بغیر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا مقامی ڈوروں صنعت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آئندہ 12 سے 24 ماہ میں بغیر پائلٹ طیاروں پر تقریباً 47 کروڑ ڈالرز تک خرچ کرنے والا ہے، تاہم بھارتی ڈرون ساز ادارے انڈین ڈرون پروگرام کا چین سے آنے والی لیتھیم بیٹری اور چند دیگر پرزوں پر انحصار ختم کرنے کے خواہاں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب چین پاکستان کا مستند فوجی شراکت دار بن چکا ہے، بھارتی ڈرون ساز اداروں کو خدشہ ہے کہ چین ان پرزوں کی فراہمی کسی بھی وقت بند کر سکتا ہے جس سے مودی سرکار کا وسیع پیمانے پر بھارتی ڈرونز بنانے کا پروگرام وڑ سکتا ہے۔
اس صورت حال سے آگاہی رکھنے والے پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی فضائیہ بھی مزید اور جدید ڈرونز حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنے طیاروں کو خطرے میں ڈالنے سے بچا سکے۔ پاکستان ممکنہ طور پر موجودہ شراکت داریوں کو بنیاد بنا کر چین اور ترکی کے ساتھ تعاون مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ مقامی سطح پر ڈرونز کی پیداواری صلاحیتوں کو فروغ دیا جا سکے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان ’ڈرون حملوں کو عسکری دباؤ ڈالنے کے ایک ایسے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو فوری طور پر کسی بڑے پیمانے پر خرابی کا سبب نہیں بنتا۔ تاہم ایسی جھڑپیں مکمل طور پر خطرے سے خالی نہیں ہوتیں کیونکہ دونوں ممالک ڈرونز کو ایسے متنازع یا گنجان آباد علاقوں پر حملے کے لیے بھیج سکتے ہیں جہاں وہ پہلے انسانی عملے والے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔
وزیراعظم کی ورلڈ بینک صدر سے ملاقات، اصلاحات پر عالمی بینک کا اعتماد
ماہرین کے مطابق حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی دونوں ممالک نے ڈرونز کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ انڈیا کی جانب سے 7 مئی کے حملوں کے بعد پاکستان نے انڈیا کے ساتھ 1700 کلومیٹر طویل سرحد پر جھتوں کی شکل میں ڈرون بھیجے، جن میں سے 300 سے 400 ڈرونز نے 36 مقامات سے داخل ہو کر انڈین فضائی دفاع کو جانچنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد انڈیا نے اسرائیل، پولینڈ کے بنائے ہوئے ڈرونز کے علاوہ مقامی طور پر تیار کردہ ڈرونز پاکستانی فضائی حدود میں بھیجے۔ ان میں سے کچھ کو پاکستان میں حملوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا لیکن پاکستان نے زیادہ تر ڈرونز کو مار گرایا۔
