کروز میزائل فائر ہونے پر بھارت کو شرمندگی کیوں اٹھانا پڑی؟

بھارت اور روس کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کیا گیا کروز میزائل اس وقت عالمی سطح پر بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا جب یہ میزائل اپنے نشانے سے چوکتے ہوئے پاکستان میں ہٹ کر گیا، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہ ہونے پر دونوں ممالک میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔
گذشتہ برس مارچ میں پاکستان میں میزائل داغے جانے کے معاملے پر انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ معاملہ ہے جہاں ہم عالمی برادری کے سامنے شرمندہ ہوئے۔ انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ انڈیا کی طرف سے جوہری صلاحیت کے حامل کروز میزائل کا غلط فائر ہونا جو گذشتہ سال پاکستان میں گرا تھا، پڑوسی ممالک کے درمیان ’جنگ کی صورت حال‘ کا باعث بن سکتا تھا۔
برہموس، زمین سے حملہ کر کے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا سٹیلتھ سپرسونک کروز میزائل روس اور بھارت نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ اسے گذشتہ سال نو مارچ کو بھارت کی شمالی ریاست ہریانہ سے داغا گیا تھا اور وہ پاکستان میں صوبہ پنجاب کے مشرقی قصبے میاں چنوں کے قریب گرا تھا اور نئی دہلی کے لیے سفارتی سطح پر ڈراؤنے خواب کا باعث بنا تھا۔
انڈین فوج نے فضائیہ کے تین اہلکاروں کو غلطی سے میزائل داغنے کا قصوروار قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا تھا، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل چیتن شرما نے منگل کو دہلی ہائیکورٹ کو بتایا کہ ’بالکل یہ وہ معاملہ ہے جہاں ہم بین الاقوامی برادری کے سامنے شرمندہ ہوئے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق مسٹر شرما نے کہا کہ ’میزائل انڈیا میں نہیں گرا، پاکستان میں گرا۔ یہ جنگ کی صورتحال کا باعث بن سکتا تھا اور اس ملک نے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی۔وفاقی حکومت ونگ کمانڈر ابھینو شرما کی طرف سے دائر درخواست کی مخالفت کر رہی ہے، جو اس واقعے کے بعد برطرف کیے جانے والے افسران میں سے ایک تھے۔
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے دلیل دی کہ درخواست گزار نے اپنے عہدے سے برطرف ہونے کے چھ ماہ بعد عدالت کا رخ کیا تھا۔انڈین وزارت دفاع نے کہا کہ دیکھ بھال کے دوران تکنیکی خرابی کی وجہ سے میزائل غلطی سے داغا گیا تھا۔’ان تین افسران کو بنیادی طور پر اس واقعے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ان کی خدمات کو مرکزی حکومت نے فوری طور پر ختم کر دیا۔
ونگ کمانڈر نے رواں سال مارچ میں عدالت سے رجوع کرتے ہوئے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ انہیں صرف دیکھ بھال کی تربیت دی گئی تھی آپریشنل معاملات کی نہیں۔ واقعہ آپریشنل تھا اور انہوں نے ایس او پی کے مطابق اپنے تمام فرائض انجام دیئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ’درخواست گزار کے پاس آپریشن انجام دینے اور آپریشنل ایمرجنسی سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور جواب دہندگان نے برطرفی کا حکم جاری کر کے مکمل طور پر غلط طریقے سے کام کیا۔
درخواست گزار نے دعویٰ کیا ہے کہ حکام نے تادیبی کارروائی شروع کرنے کے عمل اور مقدمے کے لیے ضروری چیزوں کو کورٹ مارشل کے ذریعے ’جان بوجھ کر روکا‘ جس سے وہ اپنے دفاع کے کسی بھی موقع سے محروم رہے۔ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے چھ ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔

احساس محرومی،بلوچ قوم پرست تحریک میں شدت آنے لگی

Related Articles

Back to top button