اسرائیلی وزیراعظم ایرانی حکومت کا خاتمہ کرنے میں ناکام کیوں رہا؟

اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کا ایک بنیادی مقصد رجیم چینج یا حکومت کی تبدیلی بھی تھا، لیکن بظاہر یہ کوشش ناکام ہو گئی ہے چونکہ ایرانی عوام اسرائیل کی امیدوں کے برعکس خامنہ ای کی قیادت میں اپنی حکومت کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر اسرائیلی حملوں کا مقصد ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا تھا، لیکن اسکے پیچھے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا ایک وسیع تر منصوبہ اور بھی ہے اور وہ ہے تہران میں حکومت کی تبدیلی۔ ان کو امید تھی کہ ایران کی فوجی قیادت کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور اس کے نیوکلیئر پلانٹس پر حملوں کے نتیجے میں ملک بھر میں بدامنی پھیلے گی جو ایران میں اقتدار کا تختہ الٹ دے گی۔ تاہم ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
ایران پر حملوں کا سلسلہ شروع ہونے کے فوری بعد نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ایرانی عوام اپنے پرچم اور اسکی تاریخی وراثت کے گرد متحد ہو کر موجودہ شیطانی اور جابر حکومت سے خود کو آزاد کروانے کے لیے کھڑے ہوں۔‘
اسرائیلی وزیراعظم کا خیال تھا کہ بہت سارے ایرانی شہری معیشت کی مخدوش حالت، آزادی اظہار پر پابندیوں، اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق سلب کیے جانے کی وجہ سے حکومت سے ناخوش ہیں لہذا اسرائیلی حملوں سے انہیں حکومت گرانے کا موقع مل جائے گا۔ اسی مقصد کی خاطر اسرائیل نے اپنے حملوں میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر، مسلح افواج کے چیف آف سٹاف اور پاسدارانِ انقلاب کے کئی دیگر اعلیٰ سربراہان کو بھی شہید کر دیا تھا تاکہ فوج بکھر جائے اور افرا تفریح کا شکار ہو جائے۔ تاہم ایسا نہیں ہو پایا اور ایران نے کامیابی کے ساتھ تمام مارے گئے کمانڈرز کی متبادل قیادت کا اعلان کرتے ہوئے بھرپور جوابی حملے شروع کر دیے ہیں۔
تاہم اسرائیلی وزیراعظم کو اب بھی امید ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے خاتمے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مزید ایرانی رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا اور ایران کے روحانی رہنما علی خامنہ ای بھی اسرائیلی ٹارگٹ ہیں۔ اسرائیلی قیادت کے خیال میں مسلسل فضائی حملے اور ہلاکتیں ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کر رہی ہیں جس سے عوامی بغاوت کی راہ کھول سکتی ہیں۔ کم از کم نتن یاہو کو یہی امید ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا جوا ہے۔ انکے خیال میں ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ایسا کچھ ہو گا لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں۔
عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کسی انقلاب کا خدشہ اس لیے نہیں کہ وہاں سب سے زیادہ طاقت رکھنے والے لوگ وہ ہیں جو مسلح افواج اور معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ طاقت پاسدارانِ انقلاب کے پاس ہے لہٰذا انھیں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اقتدار میں ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویسے بھی ایران میں ایسی کوئی مضبوط اپوزیشن یا لیڈر موجود نہیں جو موجودہ قیادت کا متبادل بن سکے۔
ہاد رہے کہ ایرانی اپوزیشن حالیہ برسوں میں انتہائی منقسم رہی ہے۔ 2022 میں ایران میں چلنے والی پر تشدد ’ویمن لائف فریڈم‘ تحریک نے ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس دوران کچھ اپوزیشن جماعتوں نے مل کر حکومت مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یہ اتحاد ذیادہ دیر تک نہیں چل پایا کیونکہ ان کے سنجیدہ نظریاتی اختلافات تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس اتحاد کی قیادت کون کرے گا اور حکومت گرانے کے بعد اگلی حکومت کی شکل کیا ہو گی۔
کیا ایران واقعی اگلے چند ماہ میں نیوکلیئر طاقت بننے جا رہا تھا؟
آج چند ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں ایران میں متبادل قیادت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ایران کے سابق ولی عہد رضا پہلوی ہیں جو سابق شاہ ایران کے بیٹے ہیں، 1979 کے اسلامی انقلاب میں انکے والد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور وہ جلاوطن ہو گئے تھے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رضا پہلوی 46 برس گزر جانے کے بعد بھی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن وہ امریکی قیادت کو اپنی حمایت میں قائل کرنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا۔اگرچہ وہ اب بھی ایران کے سیکولر طبقے میں مقبول ہیں لیکن کچھ کرنے کے لیے انہیں ملک واپس آنا پڑے گا لیکن وہ یہ رسک نہیں لینا چاہتے۔
اسکے علاوہ ایران میں مجاہدین خلق نامی ایک گروہ بھی موجود ہے، یہ ایک جلاوطن قیادت پر مبنی گروپ ہے جو ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی حمایت کرتا ہے لیکن بادشاہت کا نظام بحال کرنے کے خلاف ہے۔ یہ بائیں بازو کا مسلم گروپ ہے جس نے شاہ ایران کی سخت مخالفت کی تھی۔ انقلاب ایران کے بعد مجاہدین خلق کی لیڈرشپ عراق چلی گئی اور ایران کے خلاف جنگ کے دوران صدام حسین کے ساتھ مل گئی، یہی وجہ ہے کہ یہ گروپ ایرانیوں میں غیر مقبول ہو گیا۔ تاہم مجاہدین خلق اب بھی سرگرم ہے اور امریکہ میں اس کے کئی دوست ہیں، جن میں سے کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کیمپ کے کافی قریب ہیں۔ تاہم ٹرمپ کے پہلے دور حکومت کے برعکس وائٹ ہاؤس میں اس کا اثر و رسوخ کم ہے، اس دور میں مائیک پومپیو، جان بولٹن اور روڈی جولیانی سمیت سینیئر امریکی حکام مجاہدین خلق کے اجتماعات میں شریک ہوئے اور حمایتی تقاریر کی تھیں۔