دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ؟

معروف صحافی مظہر عباس نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بار بار جنگ شروع کرنے اور جیتنے کے مسلسل دعوؤں کے باوجود سچ یہ ہے کہ ہم پچھلی دو دہائیوں میں دہشتگردوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی دوغلی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ جو قوم اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بجائے بیساکھیوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ سہاروں اور اشاروں پر ہی زندہ رہ سکتی ہے، اس لئے ایک طرف ہم امریکی صدر کے ’شکریہ‘ پر ہی خوش ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف ہم اس امید پر ٹرمپ جیسے صدر کی حمایت کرتے ہیں کہ شائد وہ ہمارے لیڈر کو جیل سے رہائی میں مدد دے گا۔ آج ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی بڑھتا جارہا ہے اور دہشت گردی، انتہا پسندی کے بادل بھی گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ مغربی بارڈر آج مشرقی بارڈر سے زیادہ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ ایک طرف افغانستان، ایران تو دوسری طرف بھارت۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی پالیسیاں تھیں جو آج آپ کو دہشت گردی کے دہانے پر لے آئی ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ پہلے ہم روسی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکہ کے اتحادی بنے اور مجاہدین کا ساتھ دیا لیکن بعد میں جب امریکہ نے بتایا کہ یہ مجاہدین تو دراصل دہشت گرد ہیں تو ہم نے ان کے خلاف جنگ لڑنا شروع کر دی۔ اب وہی مجاہدین طالبان کہلاتے ہیں جو افغانستان میں حکمران ہیں لیکن پاکستان میں دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ 90 کی دہائی میں ہم سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے افغان ’طالبان‘ کو کھڑا کیا جسکے بطن سے تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے انتہاپسند اور شدت پسند گروپس تشکیل پانا شروع ہو گئے۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو فوج نے ان پر دونوں ادوار میں واضح کر دیا تھا کہ وہ ’افغان پالیسی‘ سے دور رہیں گی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ 1995ء میں مصر کی انٹیلی جنس نے کئی سو اخوان المسلمین مجاہدین کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاع دی تو انہیں ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ ہوا جس کے ردعمل میں اسلام آباد میں مصری سفارت خانہ کو خود کش کار بم سے اڑانے کے لیے حملہ ہوا اور 17 افراد ہلاک ہو گئے۔ تصور کریں ابھی 9/11 بھی نہیں ہوا تھا۔ اسی سال یعنی 1995 میں کراچی میں ہی نرسری کے قریب امریکی سفارت خانہ کی گاڑی پر فائرنگ میں دو سفارت کار ہلاک ہوئے۔ اسی سال پاکستان نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے پہلے واقعہ میں ملوث رمزی یوسف کو امریکہ کے حوالے کیا۔ اگست 2001ءمیں یعنی 9/11 سے ایک ماہ پہلے ہی پاکستان میں تمام فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ پھر 9/11 کے سانحے کے بعد جنوری 2002 میں تمام جہادی تنظیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے سرکردہ رہنما اور طالبان کے کمانڈرز نے پاکستان کا رخ کرلیا۔ دنیا بدل چکی تھی اور اب ہمیں اپنے ہی بنائے ہوئے طالبان اور ان جیسے گروپس سے خطرہ لاحق ہو گیا۔

دوسری طرف مذہبی جماعتوں نے امریکی فوجی مداخلت کے خلاف پاکستان میں ایک نیا محاذ کھول دیا۔ 2002 کئی لحاظ سے پاکستان کے لئے خون آشام سال رہا۔ اس برس کئی خودکش حملے ہوئے۔ کراچی میں تین حملے امریکیوں پر ہوئے جن میں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ فرانسیسی انجینئرز کی بس پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے سامنے ہوٹل میں ٹھہری نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ میچ چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ 2006 میں امریکی صدر جارج بش کے پاکستان آنے سے چند دن پہلے ایک بار پھر کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے قریب کار دھماکے میں ایک سفارت کار سمیت تین دیگر افراد ہلاک ہوئے۔ مظہر عباس کے مطابق ہماری پالیسی کا کمال یہ ہے کہ ہم نے بڑے بڑے آپریشن کر کے اپنے علاقے بشمول شمالی وزیرستان ،جنوبی وزیرستان اور مالاکنڈ دہشت گردوں سے خالی تو کرا لیے لیکن آج بھی وہاں ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان کھڑے ہے۔ افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں کے دوران ہماری ریاست کا جھکاؤ طالبان کی طرف رہا کیونکہ ہمارے خدشات تھے کہ بھارت نے وہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ آج وہاں طالبان کی حکومت ہے اور اب ہمارا تنازع طالبان کی حکومت سے ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔

دوسری طرف بلوچستان ہے جہاں دہشت گردی کا نشانہ یا تو چینی باشندے بن رہے ہیں یا غیر مقامی لوگ خاص طور پر پنجابی جن میں زیادہ تر محنت کش ہوتے ہیں۔ لہازا  اب بھی وقت ہے کہ اہم حکومتی شخصیات دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے کھوکھلے اعلانات سے باہر نکلیں اور عملی طور پر اس جن کو قابو کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ امریکہ اور پاکستان کے فیصلہ سازوں میں اصل فرق یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور فوجیوں کو مارنے والوں کا آخر تک پیچھا کرتے ہیں اور ہم آرمی پبلک سکول پشاور میں سینکڑوں معصوم بچوں کو شہید کرانے والے ماسٹر مائنڈ احسان اللہ احسان کو قید سے فرار ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں۔

Back to top button