پاکستانیوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا خدشہ حقیقت بن گیا؟

ترکمانستان میں تعینات پاکستانی سفیر احسن وگن کو امریکی حکام کی جانب سے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے اور واپس بھیجنے کا واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب یہ افواہیں گرم ہیں کہ صدر ٹرمپ افغانستان کے علاوہ پاکستانی شہریوں کے بھی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے جا رہے ہیں۔ اس واقعے نے پاکستانیوں کے ان خدشات میں اضافہ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ واقعی ان کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکام نے اپنے سفیر کو امریکہ سے واپس بھجوانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور چیک کیا جا رہا ہے کہ اصل مسئلہ کیا تھا۔

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ احسن وگن کسی سرکاری دورے پر امریکہ نہیں گئے تھے بلکہ یہ ان کا نجی دورہ تھا۔ لیکن دفتر خارجہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستانی سفارت کار کو امریکہ میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں ملی، تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔

پاکستانی سفارت کار کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیے جانے کا واقعہ ریاست کیلیفورنیا کے دارالحکومت لاس اینجلس کے ہوائی اڈے پر پیش آیا تھا۔ بتایا جاتا یے کہ سندھ کے شہر نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے احسن وگن 1996 میں پاکستان کی فارن سروس کا حصہ بنے تھے۔ ابتدائی چند برس دفتر خارجہ میں فرائض انجام دینے کے بعد وہ 2000 سے 2004 تک نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پاکستانی سفارتخانے میں سیکنڈ سیکریٹری رہے۔ احسن وگن امریکہ میں بھی سفارتی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ 2006 سے 2009 تک لاس اینجلس میں پاکستان کے سفارت خانے میں ڈپٹی قونصلر جنرل رہ چکے ہیں۔

احسن 2009 سے 2013 تک عمان میں پاکستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن رہے۔ 2015 سے 2019 تک احسن نائجر میں پاکستانی سفارت خانے کے ’ہیڈ آف مشن‘ رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد وہ 2019 سے 2022 تک مسقط میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ 2022 کے بعد اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں ڈی جی اوورسیز پاکستانیز، قونصلر افیئرز اور کرائسسز مینجمنٹ یونٹ میں فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین کے مطابق یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ ایک سفارت کار کو مکمل دستاویزات کے باوجود امریکہ میں داخلے کی اجازت نہ مل سکے حالانکہ وہ لاس اینجلس میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات رہ چکے ہیں۔

عابدہ حسین نے کہا کہ جب کوئی سفارت کار نجی دورے پر بھی جاتا ہے تو وہ وزارت خارجہ سے اجازت لے کر جاتا ہے۔ ان کے مطابق کسی بھی ملک میں کوئی سفیر یا سفارت کار وہ سٹیشن چھوڑے گا تو اس کی پیشگی اطلاع وزات خارجہ کو کرے گا۔ ان کے مطابق سالانہ چھٹیوں تک کی بھی معلومات دینا ہوتی ہیں کہ اس دوران کوئی سفارت کار کہاں یہ چھٹیاں گزارے گا یا گزارے گی۔

دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ سفارت کار جب کسی سرکاری دورے پر جاتے ہیں تو پھر انھیں پروٹوکول ملتا ہے ورنہ سفارتی پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔ ان کے مطابق اس طرح کسی سفارت کار کو روکنے کا مطلب ہے کہ کوئی ’ریڈ فلیگ‘ ضرور ہے، جس کی وزارت خارجہ کو تحقیقات کرنی چاہیئے۔  ان کے مطابق ویزے کے باوجود امیگریشن آفیسر کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے یا نہ دے۔

احسن وگن کو روکنے کا واقعہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ امریکی سفری پابندی میں ممکنہ طور پر شامل ممالک میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ اگرچہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع سے یہ خبر شائع کی تھی کہ پاکستان اس فہرست میں شامل ہے۔ خبر کے مطابق اس فہرست میں جن دیگر ممالک پر امریکہ کے سفر کرنے پر پابندی لگائی جائے گی، ان میں افغانستان، عراق، ایران، لبنان، لیبیا، فلسطین، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن بھی شامل ہیں۔

ایک اور ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے حال ہی میں اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے پر نظرِثانی کرنے کی تجویز دی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف قونصلر افیئرز کی جانب سے 8 مارچ کو جاری کی گئی ٹریول ایڈوائزری میں کہا گیا کہ امریکی شہری ’دہشتگردی‘ کے خطرات کے پیشِ نظر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا سفر نہ کریں۔ اس ٹریول ایڈوائزری میں امریکی شہریوں کو لائن آف کنٹرول کے اطراف انڈیا اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں جانے سے بھی منع کیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر خودکش حملے کے ایک منصوبہ ساز کی گرفتاری میں مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس حملے میں 170 افغان شہریوں اور 13 امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کے ملزم شریف اللہ کو دو ہفتے پہلے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا تھا۔

Back to top button