کیا صدر زرداری کا اپنی حکومت پر یکطرفہ فیصلوں کا الزام درست ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے سرپرست صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران موجودہ حکومتی بندوبست پر ’’یک طرفہ فیصلے‘‘ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے ملکی یکجہتی کے لئے ایک خطرہ قرار دے دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ الزام درست ہے یا نہیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر پاکستان نے موجودہ حکومتی بندوبست پر الزام لگایا ہے کہ اس نے چولستان آباد کرنے کیلئے نئی نہریں کھودنے کا فیصلہ ’’یکطرفہ‘‘ طور پر کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے صرف سندھ ہی نہیں بلکہ دیگر چھوٹے صوبوں میں بھی بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔ صدرِ کے خطاب کے دوران اسلام آباد میں تعینات سفارتی نمائندوں کے لئے مختص گیلری میں ایک بھی نشست خالی نہیں تھی۔ پریس گیلری میں بیٹھ کر آپ اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے صدر کی تقریر کا ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے تھے۔ لیکن سفارت کاروں کی نشستوں کے ساتھ مائیک لگے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ساری دنیا کو پیغام یہ گیا ہے کہ موجودہ صدر نے اپنی ہی اتحادی حکومت پر ’’یک طرفہ فیصلے‘‘ کرنے کا الزام لگایا یے۔ دوسری جانب آصف زرداری کے صاحبزادے بلاول بھٹو نے بھی اس الزام کو دہرایا ہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ دنیا کے لئے ’’جمہوری‘‘ ملک کے طور پر پہچانے جانے کے لئے ہم نے کئی روایتیں محض دکھاوے کے لئے اپنارکھی ہیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا ہر پارلیمانی سال کے آغاز کے ساتھ ہواخطاب بھی ایسی ہی ایک روایت ہے۔ سچ مچ کی پارلیمانی جمہوریت میں سربراہ مملکت جب یہ خطاب کرنے آتا ہے تو اس کا واحد مقصد منتخب حکومت کی کارکردگی اور آئندہ کے عزائم کو ’’سب اچھا ہے‘‘ دکھاکر پیش کرنا ہوتا ہے۔ صدر ہمارے ہاں مگر عموماََ فوج یا نوکرشاہی سے آتے رہے ہیں۔ یہ دونوں ادارے جبلی طورپر سیاستدانوں کو نکما اور بدعنوان سمجھتے ہیں۔ لہذاان سے ابھرے صدور ناصح بزرگ کی طرح پارلیمان کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کرتے رہے۔ اصولی طورپر اس خطاب کا مسودہ وزیر اعظم کے دفتر میں تیار ہونا چاہیے۔ مختلف وزارتوں سے ان کی کا رکردگی اور آئندہ کے منصوبوں کی تفصیلات جمع کرنے کے بعد اسے لکھا جاتا ہے۔

نصرت بتاتے ہیں کہ میری پارلیمانی رپورٹنگ کا آغاز جنرل ضیاء کے دور میں ہوا تھا۔ آٹھ برس کے سخت گیر مارشل لاء کے بعد موصوف نے 1985 میں ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ کروائے تھے۔ انتخابات کے بعد جو قومی اسمبلی قائم ہوئی اس کے لئے محمد خان جونیجو کو نامزد کرتے ہوئے جنرل ضیاء نے کھل کر آگاہ کیا کہ وہ عوامی نمائندوں کو اقتدار ’’منتقل‘‘ نہیں کررہے۔ انہیں اقتدار میں شریک کررہے ہیں۔ لیکن موصوف نے یہ بھی واضح کیا کہ اس شراکت داری میں بھی میں میرے رفقاء ‘‘ کلیدی ریاستی فیصلے کریں گے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور ’’افغان جہاد‘‘ اس تناظر میں سرِ فہرست تھے۔ دوسری جانب منتخب لوگوں کا بنیادی فریضہ لوگوں کو نوکریاں دلوانا یا ’’اپنے حلقوں‘‘ میں بجلی اور گیس کی فراہمی پر توجہ دینا تھا۔

لیکن ’’غیر جماعتی‘‘ بنیادوں پر منتخب ہوئی قومی اسمبلی ’’ثانوی کردار‘‘ ادا کرنے کو تیار نہ ہوئی اور بتدریج اپنے پر نکالنا اور بعدازاں پھیلانا شروع ہوگئی۔ بالآخر اس کا خالق ہی اسے 1988ء میں برطرف کرنے کو مجبور ہوا۔ جنرل ضیاء کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ریاست کے دائمی اداروں نے باہم مل کر افسر شاہی سے ابھرے غلام اسحاق خان کو ایوان صدر میں بٹھایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مجبور کیا کہ وہ انہیں ’’متفقہ‘‘ طورپر منتخب ہوئے صدر کی صورت قبول کریں۔ آئین میں 8ویں ترمیم کی وجہ سے ان دنوں کا صدرِ درحقیقت منتخب حکومت کا نگران ونگہبان تھا۔ اسے منتخب وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کو کسی بھی وقت گھر بھیجنے کا اختیار حاصل تھا۔ اد اختیار کو ضیاء نے جونیجو حکومت کے خلاف استعمال کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت دو سال سے کم وقت میں برطرف کردی گئی۔ نواز شریف کی پہلی اور دوسری حکومتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا۔ جمہوری حکومتوں کی بے ثباتی کو بخوبی جانتے ہوئے آصف زرداری نے 2008 میں پاکستان کا صدر منتخب ہونے کے بعد نہایت دیانتداری سے تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ معاونت سے آئین میں آٹھویں ترمیم متعارف کروائی۔ صدر اس کے بعد پارلیمانی روایات کے مطابق محض ایک علامتی عہدہ رہ گیا۔

لیکن نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ 2014ء سے ہمارے ہاں کا سیاسی بندوبست ’’ہائی برڈ‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی یہ نہ  تیتر ہے اور نہ ہی بٹیر۔ اب یہاں دکھاوے کی جمہوریت ہے۔ ریاست کے ’’کلیدی‘‘ فیصلے منتخب نمائندے نہیں بلکہ ریاست ہی کے طاقتور ترین ادارے کرتے ہیں۔ ایسے حکومتی بندوبست کے ہوتے ہوئے کسی بھی صدر کا محض ’’علامتی‘‘ رہنا ناممکن ہے۔ آصف علی زرداری کے لئے ’’علامتی صدر‘‘ ہونا اس لئے بھی بہت مشکل ہے کیونکہ وہ ایک جماعت کے سربراہ بھی ہیں جس کی ’’نظریاتی‘‘ شناخت بتدریج معدوم ہوچکی ہے۔ لیکن سندھ میں وہ 2008  سے مسلسل برسراقتدار ہے۔ اپنا ’’کلہ‘‘ مضبوط رکھنے کی خاطر اس کے لئے چند معاملات پر سخت موقف اختیار کرنا ضروری ہے۔ سندھ میں عوامی سطح پر پانی ایک حساس ترین معاملہ ہے۔ دنیا بھر کے کئی ممالک میں ایسے صوبے یا ملک جو پانی کے لئے بالائی خطوں کے محتاج ہوں اس معاملہ پر بہت جذباتی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی زراعت بنیادی طورپر دریائوں سے انگریز دور میں نکالی نہروں کے پانی پر کامل انحصارکی عادی ہے۔ ’’پانی چوری‘‘ کا الزام وافر پانی سے مالا مال دیہاتوں میں بھی خاندانی دشمنیوں کی جانب لے جاتا ہے اور سندھ میں برطانوی دور ہی سے یہ تاثر عوام میں مقبول رہا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اس کے حصے کا پانی چوری کرتا ہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ وسیع تر حلقوں میں پھیلے اس تصور کی ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے ٹھوس اعدادوشمار اور آسان الفاظ میں تشکیل دئیے بیانیے سے نفی کی کوشش ہی نہیں کی۔ سچ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں موجود خدشات دور کرنے کے بجائے 1980 کی دہائی میں کالا باغ ڈیم کا قضیہ کھڑا کردیا گیا۔ بھاشا جیسے ڈیموں کی تعمیر نے اس قضیے کا خاتمہ کیا تو گزشتہ چند مہینوں سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ ایس آئی آف سی کی فوجی چھتری تلے چولستان کے ریگستان کو ’’کارپوریٹ فارمنگ‘‘ کے ذریعے گلستان میں بدل دیا جائے گا۔ اتفاقاََ گزشتہ دوبرسوں کے دوران سندھ طاس معاہدے کے ذریعے بھارت کے حصے میں گئے دریائے ستلج میں سیلاب آتا رہا ہے۔ بھارت کے پاس سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے سوا کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔ دریائے ستلج نے بپھرنا شروع کیا تو ہمارے فیصلہ سازوں کو خیال آیا کہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے اور کاشتکاری کے لئے استعمال کرنے کے لئے نہریں بنائی جائیں۔ اس فیصلے پر عوامی پنچائتوں پر غور کا انتظام نہیں ہوا۔

نصرت جاوید کے مطابق عوامی سوچ نظر انداز کرنے کی وجہ سے سندھ میں یہ تاثر بہت تیزی سے پھیلنے لگا کہ ’’اس کے حصے کا پانی‘‘ چولستان کو آباد کرنے کے لئے چرالیا جائے گا۔ گزشتہ چار مہینوں سے میں نے بارہا حکمرانوں کو متنبہ کرنے کی کوشش کی کہ چولستان کو آباد کرنے کے لئے نئی نہریں کھودنے کا خیال سندھ میں اضطراب پھیلارہا ہے لیکن اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔  ابصدر آصف علی زرداری نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کھڑے ہوکر ’’بطور صدر پاکستان اور محب وطن پاکستانی‘‘ حکومت پر الزام لگا دیا یے کہ اس نے چولستان آباد کرنے کی خاطر نئی نہریں کھودنے کا فیصلہ ’’یکطرفہ‘‘ طورپر کیا ہے اور اس فیصلے سے فقط سندھ ہی نہیں دیگر چھوٹے صوبوں میں بھی بدگمانیاں پیدا ہوں گی۔

Back to top button