زرداری اور شہباز کی زبردستی کی شادی اور کتنا عرصہ چلے گی؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ ہائیبرڈ جمہوریت کی پیداوار موجودہ سویلین سیٹ اپ بھی اپنی پیشرو حکومت کی طرح ایک ایسے سیاسی نکاح کا نتیجہ ہے جو خاندان کے بڑے بزرگوں نے فریقین کے سر ٹکرا کے ’قبول ہے، قبول ہے‘ کے شور میں پڑھوایا تھا۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں میاں بیوی کی بھلے ایک دوسرے سے بنے نہ بنے مگر دونوں تب تک ایک چھت تلے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جب تک بزرگوں کی آنکھیں سرچ لائٹ کی طرح گول گول گھومتی رہتی ہیں۔ لہذا صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف ایک دوسرے کو طلاق دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور فی الحال ایک دوسرے کے ساتھ چلنے پر مجبور رہیں گے۔

بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ آصف زرداری پاکستان کے 11ویں سویلین، دو بار  صدر بننے والے تیسرے اور دونوں پارلیمانوں کے مشترکہ اجلاس سے آٹھویں بار خطاب کرنے والے پہلے صدر ہیں۔ اس شاندار کارکردگی کے ہوتے ہمیں صدر کے ایک، ایک جملے پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ زرداری صاحب محض وفاق کے اتحاد کی ہی علامت نہیں بلکہ ایک ملک گیر جماعت کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔ لہذا یہ اُن کی دستوری ذمہ داری ہے کہ بحیثیت صدرِ مملکت وہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر عمل کریں اور پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کی توثیق کریں۔ جبکہ بحیثیت پارٹی سربراہ یہ بھی اُنکی سیاسی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر ناخوشی اور تحفظات کا اظہار کریں اور کچھ اس احتیاط سے کریں کہ کرسیِ صدارت کو بھی ناقابلِ برداشت تپش محسوس نہ ہو اور بطور سیاستدان بھی انکا ’بادشاہ گر‘ والا امیج بھی برقرار رہے ۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کو بحثیت ’رئیسِ جمہوریہ‘ اسلام آباد میں رہنا ہے اور بحیثیت سیاسی قائد بلاول ہاؤس کراچی کو بھی رونق بخشنی ہوتی ہے۔ وہ ایوانِ صدر کے تقاضوں اور مجبوریوں کو بھی خندہ پیشانی سے نبھاتے ہیں اور بطور پارٹی سربراہ ووٹر کی بھاوناؤں کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ یعنی انہیں کچھ ایسے چلنا ہوتا ہے کہ ریاست کا دستوری سفر بھی نہ رُکے اور سیاسی سلطنت کو بھی کوئی بڑا ہچکولا نہ لگے۔ صدر آصف زرداری کے لیے خود کو بچا کر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ جیسی کیسی جمہوریت بچی رہے، اور جمہوریت کو اس لیے بچانا ہے تا کہ وہ خود بھی بچے رہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’جن کے رتبے ہیں اُن کے سِوا مشکل سی ملک میں دو ہی ایسے خوش قسمت خاندان پائے جاتے ہیں کہ جن کے لیے ‘اوپر والے’ نے دو ہی راستے رکھے ہیں، ایک راستہ تو جیل کو جاتا ہے اور دوسرا محل کو۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سب جانتے ہیں کہ ہائبرڈ جمہوریت کی پیداوار موجودہ سویلین سیٹ اپ بھی اپنی پیشرو حکومت کی طرح زور زبردستی کے سیاسی نکاح کا نتیجہ ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں میاں بیوی کی بنے نہ بنے مگر دونوں اتحادی حکومت کی طرح بندوقوں کے سائے تلے جیسے تیسے مدت پوری کرتے ہیں۔ ایسے سسٹم میں اگر دولہا خاندان کے بڑوں سے بغاوت کرے تو گھر سے نکالا جاتا ہے اور دلہن کا رویہ ناقابلِ برداشت ہو جائے تو گھر واپسی کے ساتھ ساتھ جہیز سے بھی جاتی ہے۔ یہ نزاکتیں موجودہ سیاسی اتحادی جوڑے سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے جسکی اقتدار کے منڈب پر کئی کئی شادیاں اور کئی کئی طلاقیں ہو چکی ہیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں ایسے بیسیوں رہنما اور جماعتیں پائی جاتی ہیں جو ایک بار، بس ایک بار صدر، وزیرِ اعظم یا وفاقی وزیر بننے کے لیے زندگی بھر ایک ستون سے دوسرے ستون کے درمیان طواف کرتے رہتے ہیں مگر اُوپر والا جانے کیوں اُن کی نہیں سنتا۔ اور اسی ملک میں دو ایسے خوش قسمت خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ جو یا تو جیل میں رہتے ہیں یا محل میں۔ کسی ڈرائنگ روم کی جھولتی کرسی میں دھنس کر یا کسی ٹاک شو پر جا کے اصلاحی مشوروں دینا یا قوم کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہانا بہت آسان ہے۔ مگر ذرا اپنے ضمیر کے منہ اور دل پر ہاتھ رکھ کے فیصلہ کریں کہ اگر آپ ستر کے پیٹے میں ہوں تو آپ اس جاتی عمریا میں کیا چنیں گے؟ جیل یا ریل؟ ہاں اگر آپ کوئی سرپھرے بد دماغ چریا ہیں تو الگ بات ہے ورنہ ریل کی سیر ہی مناسب رہتی ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اس پس منظر میں صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ آئینی خطاب میں موجودہ حکومت کے مبینہ من مانے رویے پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے سرسبز پاکستان منصوبے کے تحت چولستان نہر سمیت چھ اضافی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے منصوبے میں وفاق کے تمام یونٹوں کو اعتماد میں نہ لینے کا جو برسرِ عام شکوہ کیا ہے وہ آبائی صوبے میں اپنا سیاسی ریکارڈ برقرار رکھنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔ جو طاقتور لوگ چولستان کے صحرا میں سرسبز پاکستان جیسے زرعی منصوبے متعارف کروا رہے ہیں انھیں پارلیمنٹ میں ہونے والے رونے دھونے اور شور شرابے سے کوئی ٹینشن نہیں۔ تشویش تو تب ہو جب گھر میں بجنے والے بھانڈے گلی اور سڑک پر آ کر گرنا شروع ہو جائیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر زرداری نے چولستان نہر سمیت چھ اضافی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے منصوبے بارے وفاق کے تمام یونٹس کو اعتماد میں نہ لینے کا گلا کیا۔ لیکن کچھ دل جلے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بھی ہائبرڈ نظام میں پارلیمنٹ دراصل وہ جھنجھنا ہے جس سے عام آدمی کو جتنا اور جب تک ممکن ہو بہلایا جا سکے اور جب عام آدمی کی توجہ بٹنے لگے تو جھنجھنا بدل دیا جائے۔ نئی نہروں کی تعمیر کا شوشہ بھی اصل بنیادی مسائل سے عوامی توجہ بٹاؤ منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ کوئی بھی منصوبہ ضروری یا کارآمد ہے یا نہیں، اس سوال سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ گیم کوئی بھی ہو اربوں روپے کی ہونی چاہیے۔ تاکہ نظر بھی آئے اور منصوبہ سازوں کو چار پیسے بھی بچیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اسی لیے پاکستان سمیت کئی پسماندہ ممالک ایسے عالیشان منصوبوں کا قبرستان ہیں جہاں قبروں پر جا بجا ٹیکس اور قرضوں کے سنگِ مزار نصب ہیں۔ ایسے منصوبے حکمران اشرافیہ کے ساتھ ساتھ مخالفوں کو بھی اپنی دکان چمکائے رکھنے کا سنہری موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ جتنا دودھ فرہاد کی نہر میں بہہ رہا تھا لگ بھگ اتنا ہی پانی چولستان کی نہر میں بھی بہے گا۔ مگر ریاست و سیاست کا تو دار و مدار اور بقا ہی خواب فروشی کے کاروبار پر ہے لہذا غریب عوام کے خواب تو خواب ہی رہیں گے۔۔۔

Back to top button