پاکستان میں مقیم سابق افغان فوجی اور انٹیلیجنس حکام سخت پریشان

حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ تک ملک میں قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد سب سے زیادہ پریشانی کا شکار سابقہ افغان نیشنل آرمی اور انٹیلیجنس کے اہلکار ہیں جو طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بڑی تعداد میں پاکستان آ گئے تھے، دراصل امریکی انتظامیہ نے ان فوجی اور انٹیلی جنس حکام کی بطور مخبر خدمات کے عوض انہیں امریکی شہریت دینے کا وعدہ کیا تھا اور طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد انہیں عارضی طور پر پاکستان منتقل کر دیا تھا۔

یہ تمام لوگ امریکی شہریت ملنے کے انتظار میں تھے، تاہم نئے صدر ٹرمپ نے صدر بائیڈن کا یہ پروگرام معطل کرنے کا اعلان کر دیا لہذا اب حکومت پاکستان نے بھی ان لوگوں کے لیے ملک بدری کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ہے۔ ایسے میں امریکی افواج کے لیے مخبری س کا کام کرنے والے فوجی اور انٹیلیجنس حکام سخت پریشان ہیں۔ انکا موقف یے کہ اگر انہیں واپس افغانستان بھیجا گیا تو طالبان حکومت ان کے ساتھ انتہائی بھیانک سلوک کرے گی۔ لیکن حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کوئی بھی غیر ملکی غیر قانونی طور پر مقیم نہیں رہ سکتا اس لیے ہر خاص و عام کو 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنا ہوگا۔

 پاکستان میں موجود 30 لاکھ افغانوں میں سے نصف سے زیادہ کے پاس متعلقہ دستاویزات نہیں لہذا یہ سب اس وقت ملک بدری کے خدشات سے دوچار ہیں۔ افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ گھروں پر پولیس کے روزانہ چھاپوں کے سائے میں مسلسل خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ اگر وہ افغانستان واپس بھیجے گئے تو انھیں قتل ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ان میں سابقہ افغان نیشنل آرمی اور انٹیلیجنس اہلکاروں کے خاندان بھی شامل ہیں جو اس امریکی آبادکاری پروگرام کا حصہ ہیں، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان ایک طویل عرصے سے افغان پناہ گزینوں کو پناہ دیتا آیا ہے لیکن سرحد پار سے ہونے والے دہشت گرد حملوں نے دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ پاکستان ان حملوں کا الزام افغانستان میں مقیم شدت پسندوں پر لگاتا ہے جس کی طالبان حکومت تردید کرتی ہے۔

یاد رہے کہ اس وقت پاکستان میں چار قسم کے افغان مہاجرین رہتے ہیں، پہلی قسم وہ ہے جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں ان کی بڑی تعداد کو نکالا جا چکا ہے۔ دوسرے اے سی سی کارڈ ہولڈر ہیں، ان کی تعداد 9 لاکھ ہے۔ پی او آر یعنی وہ افغان جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن ہے ان کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ چوتھی قسم وہ ہے جو افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد پاکستان آئے تھے، یہ لوگ امریکا اور یورپ جانے کے لیے ویزا پراسیس مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

دراصل ان لوگوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا فیصلہ 29 جنوری کو وزیراعظم آفس میں ایک اہم میٹنگ میں ہوا، جس میں افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی کی منظوری دی گئی۔ تمام اقسام کے افغان مہاجرین کو 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی کی حدود سے نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ تک کی مہلت دی گئی، جبکہ پی او آر کارڈ ہولڈرز کے حوالے سے کہا گیا کہ انہیں 30 جون 2025 تک پہلے ہی مہلت دی جا چکی ہے، انہیں دوسرے مرحلے میں نکالا جائےگا۔

اپنے ویزوں کے لیے انتظار میں پاکستان میں بیٹھے افغان مہاجرین کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے 31 مارچ تک نکالنے کا فیصلہ ہوا، اس کے علاوہ وزارت خارجہ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بیرونی سفارت خانوں سے رابطہ کرکے تفصیلات حاصل کرے اور جن افغان مہاجرین کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں یا جن کو نئی امریکی پالیسی کی وجہ سے ویزے نہیں ملنے ان سب کو واپس افغانستان بھجوا دیا جائے۔

پہلے مرحلے میں اے سی سی کارڈ ہولڈرز سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ تک پاکستان چھوڑ دیں، اس حکم نامے سے 9 لاکھ افغان مہاجرین متاثر ہوں گے۔ پاکستان نے اکتوبر 2023 سے افغان مہاجرین کو نکالنے کا عمل شروع کیا تھا۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 42 ہزار افغان پاکستان سے جا چکے ہیں، ان میں سے 40 ہزار افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ افغان طالبان کے خلاف کارروائی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہورہی، انہیں یورپ، ترکیہ اور ایران سے بھی واپس بھجوایا جارہا ہے۔ کابل میں ایرانی سفیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ اتفاق ہوگیا ہے کہ وہ ایران میں مقیم غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس قبول کرے گی۔ جرمنی کے متوقع حکومتی اتحاد نے بھی افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے پروگرام روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، سابق افغان نیشنل آرمی اور انٹیلیجنس کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں پاکستان آگئے تھے، ان کی اکثریت اپنے ویزا پراسیس مکمل کروا کر یورپ اور امریکا جانے کے لیے پاکستان میں عارضی طور پر آئی تھی۔ پاکستانی فیصلہ سازوں میں یہ تاثر مستحکم ہوچکا ہے کہ افغانوں کو واپس بھیجنے کا وقت آگیا ہے، انکا موقف ہے کہ اس بے دخلی سے معاشی دباؤ بھی کم ہوگا، امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوگی۔

پاکستان کے اس فیصلے پیچھے سیکیورٹی صورتحال، افغان طالبان حکومت کے ساتھ تناؤ، ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان کا کارروائی نہ کرنا، اور افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد امن و امان میں بہتری اہم وجوہات ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس بے دخلی سے افغانستان کے اندر ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، کیونکہ افغان طالبان حکومت اتنے لوگوں کو سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتی، اور لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی واپسی افغانستان کی سیاسی و معاشی صورتحال کو مکمل تبدیل کر سکتی ہے۔

Back to top button