پاکستان IMF کے قرض کا کشکول توڑنے میں ناکام کیوں رہےگا؟

آئی ایم ایف سے25واں بیل آؤٹ قرض پیکج حاصل کرنےکےباوجود  پاکستان ابھی تک ایسی پوزیشن میں نہیں آ سکا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے عزم کے مطابق آئی ایم ایف کے قرض کا کشکول توڑ سکے اور ائندہ قرض لینے کے لیے اس کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔

ماہرینِ معاشیات کے مطابق ملکی معیشت چلانے کے لیے حکومت صرف آئی ایم ایف ہی پر انحصار نہیں کر رہی بلکہ اس وقت چینی قرضوں کا کردار بھی اہم ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلام آباد کا بیجنگ پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ چین نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے لیے دو ارب ڈالرز قرض مزید ایک سال کے لیے رول اوور کر دیا ہے۔ یعنی قرضوں کی واپسی مزید ایک سال کے لیے مؤخر کر دی ہے۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ چین نے پاکستان کو دیا گیا قرضہ رول اوور کیا ہے۔

معاشی ماہرین کے بقول اقتصادی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے یہ رقم پاکستان کے لیے کافی مددگار ثابت ہو گی، لیکن سچ یہ ہے کہ قرض تو قرض ہی ہوتا ہے جسے واپس بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کا بوجھ عوام پر مذید ٹیکسوں کی صورت میں ڈالا جاتا ہے۔  بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی "فِچ” Fitch کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کا کُل واجب الادا قرضہ 22 ارب ڈالرز سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ ایسے میں چینی قرض رول اوور ہونے سے اسلام آباد کو غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی اور روپے کی قدر میں استحکام آئے گا۔ پاکستان کا چین پر مالی اور معاشی انحصار کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں 16 ارب ڈالرز کے قرض کی تنظیمِ نو کی کوشش کے علاوہ  چار ارب ڈالرز کا نیا قرض حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ان مذاکرات کا بنیادی مقصد چینی قرضے کے ڈیفالٹ سے بچنے کی کوشش ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں چینی قیادت کو خط بھینلکھا ہے جس کے باوجود اسلام آباد کو چین سے توانائی کے شعبے میں ملنے والے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کروانے میں اب تک کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔

قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ سے مراد قرضوں کی ادائیگی میں اس طرح کی تبدیلی لانا ہے جس سے قرض کی کُل حجم میں کوئی کمی واقع ہو۔ یہ درخواست عام طور پر وہ ممالک کرتے ہیں جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوں۔ واضح رہے کہ پاکستان اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صرف چین ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب دیکھنے پر بھی مجبور ہے۔اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام میں بھی شامل ہے جس کے تحت پاکستان کو تین سال میں سات ارب ڈالرز ملنے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہونے والے اس پروگرام میں پاکستان کو ایک ارب ڈالرقرض کی ادائیگی کے بعد ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ جاری ہے۔

ماہرین معاشیات کے مطابق اس وقت پاکستان اپنے پچیسویں آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بار بار کے بیل آؤٹ پروگرامز بھی پاکستان کے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ اس بار حکومت کو آئی ایم ایف حکام کو مطمئن کرنے کے لیے کافی سخت فیصلے کرنا پڑے ہیں جس سے مختلف طبقات بالخصوص تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح مذید بڑھائی گئی، لیکن اب تک ان سخت فیصلوں کے اثرات سے معاشی بہتری نظر آنا شروع نہیں ہوئی ہے۔

پاکستان نے روایتی طور پر آئی ایم ایف اور مغربی ممالک کے زیر اثر دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے مالی تعاون حاصل کرنے کے ساتھ گزشتہ ایک دہائی میں چین کی جانب بھی دیکھنا شروع کیا تھا۔اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری قرض پروگرام میں ہونے کے باوجود پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں دباؤ کا سامنا رہے گا۔ بنیادی وجہ یہ یے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تقریباً 30 فی صد چین اور چینی کمرشل بینکوں کے واجبات ہیں جب کہ پاور سیکٹر میں چینی قرضے ان کے علاوہ ہیں۔

چین نے پاکستان میں سی پیک کے تحت اربوں ڈالرز کے منصوبوں میں  سرمایہ کاری تو کی ہے، لیکن اس کے باوجود معاشی نمو کم ہونے کی وجہ سے پاکستان اس قابل نہیں کہ یہ بھاری قرض واپس لوٹا سکے۔ ایسی صورت میں پاکستان کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو ادائیگیوں کےلیے عائد شرائط کو کم کرنے یا اضافی قرض تک رسائی کے لیے چینی قیادت سے بات چیت کی جائے۔ لیکن پاکستان کی کمزور بارگیننگ پوزیشن کی وجہ سے یہ بات چیت سیکیورٹی کے شعبے میں چینی مطالبات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا یے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ پالیسی کی ناکامی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مستقل اور طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے اگرچہ آئی ایم نے پاکستان کی معاشی پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کا آئی ایم ایف کہ فنڈنگ پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ ملکی معیشت پر آئی ایم ایف کے قرضوں کے کچھ قلیل مدتی استحکام کے اثرات تو مرتب ہوئے ہیں لیکن معیشت میں طویل المدت بہتری کے اثرات کم نظر آتے ہیں۔

Back to top button