تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کی رہائی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتی؟

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ایک سال سے زائد گزر جانے کے باوجود قید میں ہیں لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت ان کی رہائی کے لیے کوئی موثر تحریک چلانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ پارٹی چیئرمین بیرسٹر بیرسٹر گوہر خان سے لے کر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب تک سبھی لوگ زبانی کلامی اپنے کپتان کی رہائی کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کی رہائی کی بات کبھی نہیں کی گئی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے جیل سے باہر موجود رہنماؤں کو جیل میں بند عمران خان اور انکے ساتھیوں کو رہا کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی چودھراہٹ جاری رکھنے کے لیے ”سٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے کوئی ایسی تدبیر نہیں کر رہے جس سے عمران جلد اور ان کے ساتھی جیل سے باہر آ پائیں۔
ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی جو تحریک کے وائس چیئرمین ہونے کی وجہ سے خان صاحب کے جانشین سمجھے جاتے تھے وہ بھی عرصے سے جیل میں ہیں لیکن انہیں کوئی یاد نہیں کر رہا۔ نہ تو کوئی لیڈر اور نہ ہی کوئی وکیل ان کی طرف جاتا ہے اور نہ ہی کوئی پارٹی کارکن ان سے ملنے کے لیے بے تاب ہے۔ ان سے کسی مشاورت کی ضرورت کسی سطح پر محسوس نہیں کی جا رہی۔ عمران خان کی زبان پر کبھی ان کا نام آیا ہے‘ نہ ہی بیرسٹر گوہر‘ عمر ایوب یا سلمان اکرم راجہ نے ان کی سلاخوں کے پیچھے جھانکنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔
تحریک انصاف کے جو دوسرے بڑے بڑے رہنما بشمول یاسمین راشد‘ محمود الرشید‘ عمر چیمہ اور سینیٹر اعجاز چودھری وغیرہ جیلوں کو آباد کیے ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں بھی کہیں کوئی تشویش نہیں پائی جاتی۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بگٹٹ دوڑ رہا ہے‘ کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے‘ امریکہ اور یورپ میں بیٹھے تحریکیے آگ اُگل رہے ہیں‘ خان صاحب کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیل رہے ہیں لیکن ہر تدبیر اُلٹی پڑ رہی ہے۔ ان کی شعلہ فشانیاں خان صاحب کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ نئے امریکی صدر ٹرمپ سے جو امیدیں لگائی گئی تھیں اور انتخابی مہم میں عطیات دینے والے ان سے تعلق کے جو دعوے کر رہے تھے‘ وہ سب دم توڑ چکے ہیں یا ہچکیاں لے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران حکومتِ پاکستان کا جو پُرزور شکریہ ادا کیا‘ اس نے ہواؤں کا رُخ تبدیل کر ڈالا ہے۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ کے ”ایگزیکٹو آرڈر‘‘ کا انتظار کرنے والوں کے طوطے اُڑ چکے ہیں اور آخری خبریں آنے تک امریکہ میں سرگرم انصافی ٹولہ شدید پریشانی کا شکار ہے۔ دوسری جانب شہباز حکومت سکون میں ہے۔ اپنا ایک سال مکمل ہونے پر کامیابی کے ڈھنڈورے پیٹے جا رہے ہیں‘ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے‘ مہنگائی کے طوفان پر قابو پایا جا چکا‘ شرح سود کم ہو چکی‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہو چکا‘ لہازا اب آگے بڑھنے کی تیاریاں ہیں۔ لیکن دہشت گردی کا جِن بے قابو نظر آ رہا ہے‘ افغان سرزمین سے آپریٹ کرنے والے دہشت گرد وارداتوں پر وارداتیں کررہے ہیں لیکن مسلح افواج ان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ایک وسیع تر اتحاد بنانے کی کوششوں میں لگی ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح کامیابی نہیں ہو سکی۔ مولانا فضل الرحمن بیرون ملک ہیں‘ وہ واپس آئیں گے تو ان کے تحفظات پر بات ہو گی۔ شاہد خاقان عباسی بھی متحدہ کارواں کا حصہ بننے کے لیے پَر تول چکے ہیں لیکن سڑکوں کی سیاست انہیں مرغوب نہیں ہے۔ ایک بڑا سیاسی محاذ بنانے کی کوشش اس بات کا اعلان ہے کہ تحریک انصاف تنہا وہ کچھ حاصل نہیں کر سکی جو حاصل کرنا اسے مقصود تھا۔ عمران خان کی مشکلات کم ہوئی ہیں‘ نہ ہی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اتحادی حکومت کی مشکلات کم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان کو آئندہ کا لائحہ عمل بناتے ہوئے پہلے گزشتہ روز و شب کا حساب کرنا ہو گا۔ حکومت کا گریبان چاک کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا‘ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہنگامے اور تصادم کی سیاست پہلے نتیجہ خیز ہوئی ہے نہ اب ہو گی۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنی موجودہ کیفیت پر مطمئن و مسرور ہو کر نہ بیٹھ جائے اور عمران خان پر لازم ہے کہ پرانی سیاست گری سے اوپر اُٹھ کر سوچیں۔ فریقین ایک دوسرے کو زیر کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار ہوں‘ اور بات چیت کے لیے آمنے سامنے بیٹھیں۔ اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت اپنائی جائے گی تو سب کے گریبان سلامت رہیں گے۔