کیا سینکڑوں اموات کے بعد بھی کرم کا امن معاہدہ ٹوٹنے والا ہے
خیبر پختونخواہ کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم میں شیعہ سنی فسادات کے دوران سینکڑوں افراد کے مرنے کے بعد حکومتی کوششوں سے امن معاہدہ تو ہو گیا ہے، لیکن یہ سوال مسلسل کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ معاہدہ زیادہ عرصہ چل پائے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے جرگوں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور اس وقت بھی دونوں فریکین معاہدہ کرنے کے باوجود ہتھیار حکومت کے حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہے۔
کرم کے قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کافی کٹھن ہو گا اور امن برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ کوہاٹ میں لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والے گرینڈ جرگے نے اگلے روز امن معاہدے پر اتفاق کر لیا تھا۔ دونوں فریقین کی جانب سے 45، 45 افراد نے اس امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد مزید خون خرابے کو روکنا اور امن قائم کرنا ہے۔ اس چودہ نکاتی امن معاہدے میں اسلحہ حکومت کو جمع کرانے، شاہراہوں پر سفر کرنے والوں کا تحفظ کرنے، فرقہ وارانہ واقعات کا خاتمہ کرنے، امن کمیٹیاں قائم کرنے اور کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی کرنے جیسے نکات شامل تھے۔
ایک جانب حکومت نے اس پیش رفت کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے، تو دوسری جانب قبائلی عمائدین اس معاہدے مستقل امن کی جانب ایک کٹھن سفر سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے دیرپا رہنے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں 199 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور راستوں کی بندش سے کرم بھر میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔
عمران مذاکراتی عمل کے دوران فوج پر کیوں حملہ آور ہو گئے؟
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ضلع کرم میں آنے والے دنوں میں امن برقرار رہ پائے گا کیونکہ کرم کے مسائل کی ایک طویل تاریخ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1938 میں لکھنؤ کے شیعہ سنی فسادات کے اثرات نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ان فسادات کا سلسلہ، خصوصاً ضلع کرم میں 1960 کی دہائی سے مختلف ادوار میں جاری رہا ہے اور نومبر 2024 تک اس میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ خیال رہے کہ 1930 کی دہائی میں ہندوستان کی تقسیم سے قبل لکھنؤ میں جلوس نکالنے کے معاملے پر شیعہ، سنی فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ کرم میں بھی اسی دوران فرقہ وارانہ واقعات ہوئے تھے۔
کوہاٹ گرینڈ جرگے پر بات کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہونے والے جرگوں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ان کے بقول اس بار بھی معاہدے کی کامیابی کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ضلع کرم کی منفرد حیثیت اسکی آبادی اور جغرافیے کی وجہ سے ہے۔ یہاں شیعہ کمیونٹی کی اکثریت ہے۔ جب کہ کرم تین اطراف سے افغانستان کے صوبوں ننگرہار، پکتیا اور خوست سے متصل ہے۔ اس حساس محل وقوع میں اہلِ تشیع کے لیے اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کرنا ایک مشکل فیصلہ ہو گا جیسا کہ معاہدے میں طے ہو چکا ہے۔ تاہم حکومتی حلقے ہیں پراُمید ہیں کہ حکومت کی جانب سے اعتماد سازی کے اقدامات فریقین کو طویل مدتی جنگ بندی پر قائل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پہلا عملی قدم اہم سڑکوں کو آمدو روفت کے لیے کھولنا ہو سکتا ہے۔
جرگے میں اہلِ تشیع کی نمائندگی کرنے والے عنایت حسین طوری نے بتایا کہ 45 ارکان پر مشتمل ٹیم نے ان کی کمیونٹی کی نمائندگی کی۔ طوری نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔
ان کے بقول بدقسمتی سے پارہ چنار ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں اہلِ تشیع مخالف جذبات میں شدت پائی جاتی ہے۔ یہ جذبات نہ صرف پاکستان بلکہ متصل افغان صوبوں میں بھی ہیں جس سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ عنایت طوری کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں قوم کے افراد حکومت کو ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
طوری کا مزید کہنا تھا کہ جب تک افغان سرحد پر حالات کشید رہتے ہیں تب تک وہ تمام تر ہتھیار حکومت کے حوالے نہیں کر سکتے ہیں۔ اُن کے بقول انفرادی سطح پر ہتھیار اکٹھے کیے جا رہے ہیں، جو مقامی عمائدین کے سپرد کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان ہتھیاروں کا استعمال کسی بھی موقع پر اہلِ سنت کے خلاف سامنے آیا تو روایات کے مطابق حکومت ان ہتھیاروں کو ضبط کرنے اور بھاری جرمانہ عائد کرنے کی مجاز ہو گی۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹل-علی زئی کے درمیان 16 کلومیٹر طویل شاہراہ شدت پسندوں کے قبضے میں ہے جس کی بندش نے صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس سڑک کی بحالی کے بغیر زندگی کا معمول پر آنا ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ حکومت نے اس ہفتے میں ٹل-پاڑہ چنار روڈ کو کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ اس اقدام سے اعتماد سازی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور علاقے میں معمولاتِ زندگی بحال ہو سکیں گے۔