ایس آئی ایف سی میں فوج کی شمولیت سے فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے حکومت اور فوج کے اشتراک سے بنائے جانے والے معاشی پالیسی ساز ادارے ‘ایس آئی ایف سی’  کے بعض فیصلے تنازعات اور کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں جس سے ملک کو فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔

ناقدئن خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل یعنی ایس آئی ایف سی میں فوج کی شمولیت اور فیصلہ سازی میں فوجی افسران کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے سویلین اداروں کی فیصلہ سازی کی سپیس مزید کم ہو رہی ہے۔

یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت بنائی جانے والی پرائیویٹ کمپنیاں اِن شعبوں میں پہلے سے کام کرنے والے مقامی لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہیں اور متاثرہ آبادی اُن سے ناراض یو رہی ہے۔ اسکے علاوہ ابھی تک کوئی واضح شواہد نہیں ہیں کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد سے گذشتہ دو برسوں میں اس کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔

دراصل ایس آئی ایف سی بنانے کا فیصلہ تب ہوا جب پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی چین اور متحدہ عرب امارات کی کچھ کمپنیوں نے مشکلات کی شکایت کی۔ ان کا موقف تھا کہ یہاں ایسی کوئی اتھارٹی ہونی چاہیے جو انکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر سکے۔ چنانچہ ایس آئی ایف سی تشکیل دے دی گئی جس کے ذریعے زراعت و لائیو سٹاک، معدنیات، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کام، صنعت، سیاحت، نجکاری جیسے اہم شعبوں پر فوکس کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں ان شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وہ پانچ شعبے جو ایس آئی ایف سی نے منتخب کیے اُن میں سرمایہ کاروں کی سہولت کاری کے لیے ایک، ایک پرائیویٹ کمپنی رجسٹرڈ کی گئی۔ ان کمپنیوں کی سربراہی ریٹائرڈ آرمی افسران کر رہے ہیں جبکہ ایس آئی ایف سی کے سربراہان کی لِسٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا نام بھی شامل ہے۔ ایس آئی ایف سی کا تنظیمی ڈھانچہ ایسا بنایا گیا ہے کہ اس میں فوج اور انتظامیہ دونوں ہی کو حصہ دار بنایا گیا ہے۔

ایس آئی ایف سی کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بنائی گئی پانچ کمپنیوں کا مقصد سرمایہ کاروں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ وہ معاہدے کرنے کے بعد سرمایہ کاری کر سکیں۔ ان کمیٹیوں کا ایک اور مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یقین دلانا ہے کہ وہ اور انکا سرمایہ پاکستان میں محفوظ ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی باگ ڈور فوج کے پاس ہے اور ایک حاضر سروس افسر اس کے نیشنل کوآرڈینٹر ہیں۔ اس کونسل کا ایک سیکریٹریٹ وزیراعظم ہاؤس میں قائم کیا گیا ہے۔

سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات ایس آئی ایف سی کے تحت قائم ایک کمپنی ‘گرین ٹورازم’ کے سربراہ ہیں۔ ایس آئی ایف سی کے وجود میں آنے کے بعد متعدد شعبوں میں کام شروع ہوا اور یہ کونسل تمام صوبوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جہاں وزیراعظم کی سربراہی میں تمام وزرائے اعلیٰ ایک جگہ مل بیٹھتے ہیں اور پالیسی سے متعلق معاملات کو دیکھتے ہیں۔‘

بی بی سی نے حال ہی میں ان میں سے دو شعبوں یعنی زراعت اور سیاحت بارے جاننے کے لیے گلگت بلتستان اور سندھ کا دورہ کیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان میں مقامی افراد ایس آئی ایف سی کی جانب سے سیاحت کے شعبے میں کیے جانے والے اقدامات سے ناخوش ہیں جبکہ سندھ میں کسان ’گرین انیشی ایٹیو‘ کے تحت زراعت کے منصوبوں اور پانی کے مسئلے پر سراپا احتجاج ہیں۔

زراعت کے شعبے میں ایس آئی ایف سی کے ’پاکستان گرین انیشی ایٹیو‘ کے تحت ملک بھر میں 40 لاکھ ایکڑ کی ایسی غیرآباد زمین کی نشاندہی کی گئی ہے جسے آباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ زمین صوبوں سے لی جا رہی ہے اور ان میں سب سے زیادہ زمین صوبہ پنجاب میں ہے۔ یہ زمین 20 سے 30 سال کی لیز پر دی جائے گی۔

ایسا ہی ایک علاقہ چولستان ہے جسے گرین انیشی ایٹیو کے تحت زراعت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت گریٹر تھل کینال، موجودہ تھل کینال کی ری ماڈلنگ، جلال پور کینال اور گریٹر چولستان کینال بنائی جا رہی ہیں۔

15 فروری 2025 کو چولستان میں ایسے نئے زرعی منصوبوں کا افتتاح کیا گیا جو پاکستان گرین انیشی ایٹیو کا حصہ ہیں۔ اس حوالے سے ہونے والی تقریب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی خطاب کیا۔ لیکن اس منصوبے کے تحت چولستان اور دیگر نہروں کی تعمیر کے باعث ایک بار پھر پنجاب اور سندھ میں سیاسی لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ سندھ میں چولستان کینال کے خلاف قوم پرست، مذہبی جماعتوں اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز کی جانب سے گذشتہ کئی ماہ سے احتجاج جاری ہے اور اس احتجاج میں کاشتکار بھی شامل ہیں

سندھ آباد کار بورڈ کے رہنما محمود نواز کہتے ہیں کہ اگر کاغذوں پر تیس، چالیس لاکھ ایکٹر زمین آباد کریں اور آمدن بھی دکھائیں تو اچھا لگتا ہے ’لیکن اس کے لیے پانی کہاں سے آنا ہے؟ انکا کہنا یے کہ اگر اس کے لیے پہلے سے آباد زمینوں کا پانی لے کر جانا ہے تو یہ پاکستانی معشیت کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہو گی۔ انکا۔کہنا تھا کہ سندھ میں پہلے ہی پانی نہیں ہے۔ یہاں پہلے ہی قحط کا ماحول چل رہا ہے۔ اور اب عسکری اداروں کی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے سندھ کے حصے میں جو بچا کچھا پانی آ رہا ہے اس پر بھی کینال بنا کر ہمیں پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

زراعت کے ’گرین پاکستان انیشی ایٹیو‘ منصوبے کی ہی طرح ایس آئی ایف سی نے سیاحت کے شعبے میں گرین ٹورازم کا پروگرام لانچ کیا ہے جس کا مقصد پاکستان میں سیاحت کے کی جانب غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اس ضمن میں بنائی گئی ‘گرین ٹورازم کمپنی لمیٹڈ’ کے مینیجنگ ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حسن اظہر حیات نے بتایا کہ ایس آئی ایف سی کے وجود میں آنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ سیاحت کا شعبہ ایسا یے کہ اگر اس پر کام کیا جائے تو فوائد جلد حاصل ہو سکتے ہیں۔

ان کے مطابق دنیا میں اس وقت سیاحت سے 9.8 فیصد ریونیو حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان اس شعبے سے 5.2 یا کچھ اندازوں کے مطابق 5.6 فیصد ہی حاصل کر پاتا ہے۔

Back to top button