کیا مریم نواز ن لیگ کی کھوئی ہوئی عوامی حمایت واپس لے پائیں گی؟

مریم نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب اقتدار میں اپنا پہلا سال مکمل کر لیا ہے لیکن ابھی اس سوال کا جواب ملنا باقی ہے کہ کیا وہ مسلم لیگ نون کی کھوئی ہوئی عوامی حمایت واپس لے پائیں گی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بطور وزیر اعلی مریم نواز کو کئی مشکل چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ن لیگ کی عوامی حمایت واپس حاصل کرنے کا ہے۔ 2024 کے الیکشن کے کے بعد نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو وزیر اعلی بنانے کا بنیادی مقصد پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی سپیس دوبارہ حاصل کرنا تھا، پنجاب تین دہائیوں تک مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن عمران خان فیکٹر نے اسے بری طرح متاثر کیا ہے اور پاکستانی سیاست کے ڈائنامکس کو تبدیل کر دیا ہے۔
کئی سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مرکز اور پنجاب کی حکومتیں سنبھالنے کے فیصلے نے مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا، کیونکہ حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پوری کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کئی غیر مقبول فیصلے لینے پڑے۔ ان غیر مقبول فیصلوں سے نون لیگ کی مقبولیت میں مزید کمی آئی ہے۔ دوسری طرف ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان جیل میں قید ہونے کے باوجود سیاسی طور پر متحرک ہیں اور عوام کو یہ چورن بیچ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم نے ‘غیر ملکی طاقتوں’ اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروائی تھی۔ نتیجتاً، عمران خان عوامی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کو یہ وضاحت دینا پڑتی ہے کہ وہ اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مریم نواز کے لیے سب سے بڑا چیلنج وہ ووٹ بینک واپس حاصل کرنا ہے جو تحریک انصاف کے پاس چلا گیا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے پچھلے ایک برس میں جاری ہونے والے اربوں روپے کے اشتہارات سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ مریم نواز کافی متحرک ہیں اور انہوں نے نوجوانوں اور خواتین پر خصوصی توجہ دی یے۔ وہ عمران خان فیکٹر کو کاؤنٹر کرنے کے لیے پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں کے دورے کر رہی ہیں تاکہ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو عمران خان کے نعروں سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی کا سب سے بڑا اثاثہ بن چکے ہیں۔ تاہم، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ مریم نوجوانوں کو عمران سے بد ظن کر کے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نون لیگ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی سیاسی بیانیہ نہیں اور اس کے قائد نواز شریف بھی خاموشی اختیار کر چکے ہیں۔ 2024 کے الیکشن سے پہلے نواز شریف نے برطانیہ سے واپسی کے بعد ہی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ انتخابی مہم میں ان کا چہرہ اور نام استعمال کیا گیا، حتیٰ کہ انہیں پارٹی کی جیت کے بعد وزیر اعظم بنانے کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن یہ حکمتِ عملی مؤثر ثابت نہ ہوئی۔ آج کل نواز شریف پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، جن میں وہ کوئی سیاسی بیانیہ دینے کی بجائے مریم نواز کے اقدامات کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ پارٹی رہنماؤں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے شہباز شریف اور مریم نواز انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔
بطور وزیر اعلیٰ، مریم نواز نے اب تک محسن نقوی کے نگران دور میں شروع کیے گے کچھ منصوبے تو آگے بڑھائے ہیں لیکن ابھی تک وہ اپنا کوئی بھی بڑا ترقیاتی پراجیکٹ نہیں دے پائیں۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مریم بطور وزیراعلی کام تو کم کرتی ہیں لیکن مہنگی تشہیری مہم چلا کر ان کا ڈھنڈورا زیادہ پیٹتی ہیں۔ ویسے بھی پارٹی کا کوئی بیانیہ دینے کی بجائے ان کا زیادہ فوکس اپنی ذاتی تشہیر پر ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صبح 10 بجے سے شام چار بجے تک دستیاب ہوتی ہیں اور پھر اگلی صبح 10 بجے تک صوبہ وزیر اعلی کے بغیر ہی چلتا ہے۔ تاہم یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ نکمی ترین کارکردگی کے مقابلے میں مریم نواز پھر بھی بہتر جا رہی ہیں۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مریم نواز کے اصل چیلنجز ابھی باقی ہیں کیونکہ بے روزگاری اور مہنگائی کے طوفان نے عوام کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، پاکستان میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2024 میں ملک کی 40.5 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی، جو 2023 کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ تھی۔ معاشی مشکلات، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، عدالتی اصلاحات کے نام پر ہونے والے متنازعہ اقدامات، مخالفین کے خلاف سخت رویہ، اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے آگے جھکنے جیسی وجوہات عوامی بےچینی میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم فیکٹر اسی وقت کارگر ثابت ہو گا جب ملک کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگی۔ مریم نواز شاید مسلم لیگ (ن) کے کچھ ووٹرز یا ایسے افراد کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہوں جو یا تو پی ٹی آئی کو ووٹ دے چکے تھے یا انتخابات میں غیر متحرک تھے۔ لیکن پی ٹی آئی کے نظریاتی ووٹرز کو قائل کرنا ان کے لیے ایک مشکل کام ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو نوجوانوں کے اندر پی ٹی آئی کے گہرے اثر و رسوخ کو کاؤنٹر کرتے ہوئے اپنی جگہ بنانے کے لیے کوئی سیاسی بیانیہ دینا ہوگا ورنہ اگلے الیکشن میں نون لیگ کا صفایا ہو جائے گا اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل بھی گل ہو جائے گا۔