قومی اسمبلی کی 40 سیٹوں پر ضمنی الیکشن کرانے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے سو سے زائد اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں میں سے 40 کو منظور کر کے ان سیٹوں پر نئے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کل کلاں کسی اتحادی جماعت کی علیحدگی کی صورت میں حکومت کے خاتمے کا امکان ختم ہو جائے۔ باخبر حکومتی ذرائع کے مطابق ضمنی الیکشن ان حلقوں میں کروایا جائے گا جہاں اتحادی جماعتوں کو اپنے امیدوار کی کامیابی کا سو فیصد یقین ہوگا۔ تحریک انصاف کے جن ممبران قومی اسمبلی کے استعفے قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں سرفہرست شاہ محمود قریشی چوہدری فواد اور شیخ رشید شامل ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کا استعفیٰ اس مرحلے میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ استعفوں کی منظوری کا عمل ایک ہفتے میں مکمل کر لیا جائے گا تا کہ الیکشن کمیشن جلد از جلد ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری کر سکے۔ بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی 40 سیٹوں پر ضمنی الیکشن کروانے کا ایک مقصد آئین شکن صدر عارف علوی کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب بنانا بھی ہے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ ایک سیاسی بلنڈر تھا اور عمران کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ استعفے واپس لے کر سیاسی جنگ پارلیمنٹ کے اندر رہ کر لڑیں۔ تاہم بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران کو اپنی حکومت مخالف تحریک کے نتیجے میں فوری نئے الیکشن کا یقین ہے لہذا وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب حکومت کسی بھی صورت فوری انتخابات کروانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور مخصوص حلقوں میں استعفے قبول کرکے ضمنی انتخابات کی طرف جارہی ہے۔ اس حوالے سے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ عمران خان مسلسل سیاسی غلطیاں کرتے چلے جا رہے ہیں اور غلطیاں بھی ایسی جو اُن کے اور اُن کی پارٹی کے اپنے نقصان میں ہیں۔ دوسروں سے رُوٹھ کر بیٹھ جانا نہ تو نجی زندگی میں پسندیدہ عمل نہیں اور سیاست میں تو اس کی بالکل بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مخالف کسی بھی وجہ سے آپ کو کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ مخالف سے تو کبھی ہاتھ بھی نہیں ملائوں گا، چاہے کتنا ہی اہم قومی مسئلہ ہو، اداروں کے ساتھ مشاورت نہیں کروں گا۔ یہی نہیں بلکہ اگر اداروں یا ان کے سربراہوں کی کوئی بات یا عمل اچھا نہ لگے تو اُن سے بھی بات چیت بند اور فون بلاک کر دیے جائیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ہر مرض کا علاج احتجاج، جلسے جلوس اوردھرنے نہیں ہو سکتے۔ احتجاج تو سب سے آخری اقدام ہوتا ہے لیکن خان صاحب کے لیے ہمیشہ پہلا قدم ہوتا ہے۔ موصوف جو فیصلہ خود کر لیں اُس پر کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں اور خان صاحب کی اس عادت سے اُن کے اپنے رہنما بھی ناخوش ہیں لیکن کسی میں اُن کے سامنے بولنے یا اعتراض کرنے کی جرأت نہیں۔ عمران کے قریبی ساتھیوں سے آف دی ریکارڈ بات کریں تو تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگانا تحریک انصاف کے لیے پہلے دن سے نقصان دہ تھا لیکن خان صاحب اس بارے میں کوئی دوسری بات سننے کو بھی تیار نہ تھے۔ ایک آدھ پارٹی رہنماکو چھوڑ کر کسی سے پوچھ لیں سب کہیں گے کہ خان صاحب کو فوج اور اس کے سربراہ کے متعلق امریکی سازش کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ بھی کہ فوج کو نیوٹرل اور نیو ٹرل کو جانور کہنا سب غلط ہے لیکن خان صاحب نے جو کہنا ہے وہ کہیں گے۔ انہوں نے اپنے قتل کی سازش کی بھی بات کی لیکن کسی دوسرے کو نہیں معلوم کہ سازش کیا ہے؟
عمران خان جنرل باجوہ کو ہٹانے میں کیوں ناکام رہے؟
بقول انصار عباسی، جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی اور اُن کی حکومت ختم ہوئی تو موصوف کا فیصلہ آ گیا کہ سب ممبران قومی اسمبلی استعفیٰ دیں گے۔ دوسری جانب بڑی تعداد میں تحریکِ انصاف کے اراکین کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو گا لیکن خان صاحب نے بس فیصلہ کر دیا۔ اب موصوف اعتراض کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے منحرف رکن راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر بنا کر حکومتی اتحادی اپنی مرضی کا نیب چیئرمین لگا رہے ہیں اورالیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی بھی کر رہے ہیں۔ یہ اعتراض تو درست ہے کہ راجہ ریاض تو ن لیگ کے ٹکٹ پر ہی آئندہ الیکشن لڑیں گے لیکن کیا یہ درست نہیں کہ اگر ہی ٹی آئی والے قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیتے تو خان صاحب خود اپوزیشن لیڈر ہوتے۔ اب تو جب بھی الیکشن کا فیصلہ ہو گا تو عبوری وزیراعظم کا چنائو بھی راجہ ریاض ہی کریں گے۔
بقول انصار عباسی، یہ میدان تو خان صاحب نے خود ہی اپنے مخالفین کے لیے کھلا چھوڑا ہے لہذا اب ان کا اعتراض کرنا بنتا نہیں۔ پارٹی ذرائع کا کہنا یے کہ عمران خان نے جب فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے تو کسی پارٹی رہنما کو نہیں معلوم تھا کہ مارچ کی تاریخ کیا ہو گی؟ خان صاحب نے بتا دیا تو شکریہ ورنہ اُن کے فیصلے پر سب کو راضی ہی ہونا تھا۔ تحریکِ انصاف کے ایک اہم رہنما کا کہنا ہے کہ عمران کو کو گرمی کے موسم میں لانگ مارچ سے منع کیا گیا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خان سے اختلاف کر کے تحریک انصاف سے الیکشن نہیں لڑا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران نے ایک مہینہ اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے مہم چلائی، شہر شہر جلسے اور ریلیاں کیں لیکن پھر اچانک ہی لانگ مارچ آدھے راستے میں اسلام آباد سے پشاور واپس چلے گئے۔ سارے رہنما ہکا بکا رہ گئے اور یہی حالت تحریکِ انصاف کے سپورٹرز کی تھی۔ پارٹی میں کسی سے پوچھیں شاید ہی کسی کو اصل وجہ معلوم ہو ماسوائے اُس بیان کے جو خان صاحب نے خود دیا۔
انہوں نے آدھے راستے میں مارچ ختم کیا تو ساتھ ہی نئے مارچ کا عندیہ دے دیا اور کہا کہ اگر حکومت نے اُن کے مطالبات نہ مانے تو چھ دن بعد ایک اور مارچ کی تاریخ دیں گے۔ ایک خوش آئند لچک خان صاحب میں یہ ضرور آئی کہ اُنہوں نے مذاکرات کی بھی بات کر دی۔ لیکن اُن کے آس پاس کھڑے پارٹی رہنما آف دی ریکارڈ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ایک مارچ کو آدھے راستے میں چھوڑکر دوسرے مارچ کا اعلان کرنا کیسی سیاست ہے؟ پشاور میں حالیہ ایک پریس کانفرنس میں صحافی کی طرف سے تلخ سوال کیے جانے پر چڑ گئے اور وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ نجانے وہ عمران خان کہاں ہیں جو اپنے خلاف تنقید ہنس کر برداشت کر لیا کرتے تھے؟وہ اب روٹھے سے رہتے ہیں اور جس کی بات کو پسند نہ کریں تواس کا فون بلاک کر دیتے ہیں۔
خان صاحب کواپنے رویے اور فیصلوں پر غور کرنا چاہیے۔ آج بھی اگر وہ عثمان بزدار کو اپنی بہترین چوائس قرار دیتے ہیں توپھر فکر کی بات ہے۔ فکر اس لیے کہ خان صاحب پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما ہیں اور اگر دوبارہ الیکشن جیت کر حکومت میں آ جاتے ہیں تو پھر بہتری کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟