وزیر اعلیٰ کے دوبارہ الیکشن میں بھی حمزہ کی برتری کا امکان

اگر لاہور ہائی کورٹ حمزہ شہباز کا بطور وزیراعلیٰ الیکشن کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا آرڈر جاری کردیاہے تا ہم ابھی بھی مسلم لیگ نون کی زیر قیادت حکومتی اتحاد کو پرویز الٰہی اور ان کے اتحادیوں پر چار ووٹوں کی سبقت حاصل ہے۔ لہذا حمزہ کے دوبارہ وزیر اعلی بننے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ عدالت عالیہ کی جانب سے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا نتخاب دوبارہ کروانے بارے ریمارکس دیے گئے ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ پھر سے پنجاب حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔

لیبیا :ریگستان سے 20 تارکین وطن کی لاشیں برآمد ،30 لاپتہ

حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلی الیکشن کے خلاف دائر کردہ پٹیشن کی سماعت کے دوران جسٹس صداقت علی خان کا کہنا تھا کہ وزیع اعلی کے دوبارہ الیکشن کے بعد صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے تو یہ قانونی ہو گی۔ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کی حد تک فیصلہ دیں گے۔ جبکہ جسٹس شاہد جمیل کا کہنا تھا کہ موجودہ سیٹ اپ الیکشن کے انعقاد تک چلتا رہے گا۔ عدالت عالیہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت سے پوچھ کر بتائیں کہ دوبارہ اس حوالے سے اجلاس کب بلایا جا سکتا ہے جبکہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان اور پی ٹی آئی کے وکیل سید علی ظفر نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب بارے عدالت کو اپنے اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔ پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزارت اعلیٰ کا انتخاب قانون کے مطابق نہیں ہوا۔ اور یہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کرایا جائے۔

کیس کی سماعت میں عدالت نے یہ واضح کر دیا کہ وزارت اعلیٰ کی پولنگ کیلئے نئے ممبران شمار نہیں ہوں گے اور اگر نئے ممبران کی رائے شماری پر زور دیا گیا تو پھر نئی تحریک عدم اعتماد لانا ہوگی۔ عدالتی کارروائی کی بناء پر یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب ہو سکتا ہے جس کیلئے ایک مرتبہ پھر پنجاب کی موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ حمزہ شہبازشریف کیلئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی صف بندی کو محفوظ بنانے اور انتخابات میں یقینی جیت کیلئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے امیدوار سپیکر چودھری پرویزالٰہی نے بھی عدالتی کارروائی کو اپنی جیت سمجھتے ہوئے اراکین سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ عدالت عالیہ نے کیس کی سماعت میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ وزارت اعلیٰ کیلئے دوبارہ انتخاب میں پریذائیڈنگ افسر ڈپٹی سپیکر دوست مزاری ہی ہوں گے اور اس حوالے سے خود عدالت عالیہ کا فیصلہ موجود ہے جسے کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ ایسی صورت میں انتخاب وہی پریذائیڈنگ افسر کرائے گا جس نے انتخاب 16 اپریل کو کرایا تھا۔

عدالتی سماعت کے بعد اگر پنجاب اسمبلی میں صف بندی پر نظر دوڑائی جائے تو ایوان میں موجود حکمران اتحاد کو اس وقت 177 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کے 165، چار آزاد، ایک رائے حق پارٹی اور سات پیپلزپارٹی کے اراکین شامل ہیں۔ تحریک انصاف جو کہ ایوان کی اکثریتی جماعت تھی اور اس کے 183 اراکین میں سے اس کے 25 اراکین منحرف ہو جانے کے بعد اب تحریک انصاف کو موجودہ ایوان میں 158 اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ ق لیگ کے دس اراکین کی مدد سے اس کی تعداد 168 ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کا زور ہے کہ پانچ مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور اس نوٹیفکیشن کی صورت میں بھی ان کی تعداد 173 ہو گی۔ اس صورتحال میں ایک رکن، چودھری نثار علی خاں کا ووٹ اہمیت کا حامل ہوگا لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ چودھری نثار علی نے اپنے دو طرفہ روابط کی بناء پر ایک مرتبہ پھر اس رائے شماری میں غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ صورتحال میں ایوان کی صف بندی کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی حمزہ شہباز کے حکمران اتحاد کو چار ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ البتہ انتخاب کی صورت میں ایوان کی تکمیل پر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے 186اراکین درکار ہوں گے جس میں پھر سے 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کی اہمیت ہو گی۔ ضمنی انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو 2018ء کے انتخابات کے نتائج میں ان حلقوں کے دس اراکین نے آزاد حیثیت میں جیت کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور دس اراکین براہ راست تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر جیت کر میدان میں آئے تھے ۔

سپریم کورٹ نے منحرف 25 اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا تھا اور اب ان حلقوں میں 17 جولائی کو انتخابات ہو رہے ہیں ۔ البتہ تین خواتین اور دو اقلیتوں کی نشستوں پر عدالت عالیہ کے احکامات کے تحت الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔ تاحال یہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا کیونکہ نون لیگ نے اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کردیا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 158سے 163 ہو جائے گی ۔ عدالت عالیہ کے ریمارکس کے بعد پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے ممکنہ انتخاب میں پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب بارے تو خطرات نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں جاری اس آئینی بحران کے نتیجہ میں حکومت کا کردار ویسا مؤثر اور مضبوط نظر نہیں آ رہا جیسا کہ پنجاب کی سابقہ حکومتوں کا تھا۔

Related Articles

Back to top button