مریم کے لباس اور انداز پر تنقید کی وجہ کیا ہے

ایک دہائی قبل اپنے والد نواز شریف کی انگلی پکڑ کر سیاسی میدان میں اترنے والی مریم نواز آج جب بھر مجمعے میں مخالف کو پوری توانائی سے للکارتی ہیں تو ان پر کسی گھاگ اور منجھی ہوئی سیاستدان کا گمان ہوتا ہے لیکن مخالفین کب ٹلنے والے ہیں، انھیں جب مریم کی تقریروں میں جھول نہیں ملتا تو وہ ان کے کردار اور لباس و انداز میں خامیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ آج کی عمرانڈو زدہ سیاست میں یہ چلن عام ہے۔ موجودہ سیاست میں نہ تو دشمن کی پالیسیاں دیکھی جاتی ہیں اور نہ ہی اس کی باتوں کی گہرائی جانچی جاتی ہے، البتہ کردار پر خوب طبع آزمائی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ مریم اپنی گفتگو میں عمران خان کو نت نئے جملوں اور استیعاروں کا ”تڑکہ“ لگاتی رہتی ہیں اور جو ٹاک آف دی ٹاؤن ہوتے ہیں،  لہٰذا عمران خان کا میڈیا سیل تو چیخے گا ہی۔۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے، یعنی جب بس نہ چلے تو مریم کے انداز و اطوار کو تختہء مشق بنانے لگیں مثلاً کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ جنیوا آپریشن کے لئے نہیں، کاسمیٹک سرجری کے لئے گئی تھیں اور کبھی ان کے قیمتی جوتوں، بیگز اور جوڑوں کی تصاویر وائرل کی جاتی ہیں۔

یوں تو پوری دنیا کے میڈیا میں سلیبریٹیز  کے سٹائل کا چرچا ہوتا ہے اور لوگ انھیں فالو بھی کرتے ہیں۔ خواہ وہ ہالی ووڈ سٹارز ہوں یا برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد۔۔برطانوی شہزادی کیٹ میڈلٹن کے لباس اور جوتوں کی قیمتیں تک وہاں کے شہریوں کو ازبر ہوتی ہیں۔ امریکہ میں یہ مقابلہ فرسٹ لیڈیز کے بیچ رہتا ہے کہ کون کیا پہنتا ہے اور کس نے وائیٹ ہاؤس کی آرائش منفرد طریقے سے کی ہے؟ لیکن ہمارے ہاں خصوصاً خواتین سیاستدانوں کے لائف سٹائل اور ٹھاٹھ باٹھ کو کچھ زیادہ ہی منفی رنگ دیا جاتا ہے۔۔ جیسے مریم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا سارا زور ہیل والی برانڈڈ سینڈلز اور اپنے میک اوور پر ہوتا ہے۔جبکہ ممکن ہے  مریم کو اس بات کا ادراک ہی نہ ہو کہ مخالفین ان کے برانڈڈ جوڑوں اور جوتوں کو لے کر ان کے امیج کو خراب کر رہے ہیں۔

اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا، محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو، بیگم کلثوم نواز شریف اور شہید جمہوریت بے  نظیر بھٹو کی نظیر سب کے سامنے ہے لیکن انھیں بھی مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔۔ جبکہ ان خواتین کا پہناوا انتہائی سادہ ہوتا، فاطمہ جناح زیادہ تر سوتی اور ہلکے رنگوں کا لباس پہنتیں البتی ان کے گلے میں اکثر سفید موتیوں کا ہار ہوتا۔ وہ کبھی کبھار ساڑھی بھی پہنتیں لیکن عام شلوار قمیض اور غرارہ انھیں زیادہ پسند تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کا پسندیدہ لباس ساڑھی تھا، وہ زیادہ تر سلک پہنتیں البتہ ان کے گلے میں بھی اکثر سفید موتیوں کا ہار ہوتا جبکہ بیگم کلثوم نواز موقع کی مناسبت سے سوتی اور سلک دونوں طرح کا لباس پہنتیں تاہم وہ چونکہ زیورات کی شوقین تھیں اس لئے وہ اپنے ہاتھوں میں ہمیشہ سونے کے کڑے یا چوڑیاں پہن کر رکھتیں۔ یوں تو بے نظیر بھی موقع کی مناسبت سے لباس زیب تن کرتیں مگر عام طور پر سفید دوپٹہ ہی اوڑھتیں۔ دنیا بھر کے لیڈران ان کی سادگی کو سراہتے  اور تو اور ان کی  بیگمات بھی بے نظیر کے غیر معمولی وژن اور نسبتاً عام لباس سے بے حد متاثر ہوتیں۔ بہرحال خواتین سیاستدانوں کے لباس اور فیشن کی تشہیر میں میڈیا کا بھی بہت ہاتھ ہے جن کا سارا فوکس خواتین اراکین  کی کارکردگی یا قانون سازی میں ان کی حصہ داری کی بجائے ان کے میک اپ، لباس اور  گاڑیوں پر ہوتا ہے

سائنسدانوں نےآپریشن میں مدد کیلئے 3Dپرنٹڈ دل تیار کر لیا

Related Articles

Back to top button