ماڈل ایان علی نے شہباز گل کو مرد بننے کا مشورہ دے دیا

ڈالر سمگلنگ کیس میں اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ڈیتھ سیل میں چارماہ قید بھگتنے والی معروف ماڈل ایان علی نے بغاوت کیس میں گرفتاری کے بعد عورتوں کی طرح رونے دھونے اورچیخ و پکار کرنے والے شہباز گل کو مرد بننے کا مشورہ دیا ہے اورکہا ہے کہ وہ اپنی مردانگی بارے ماری گئی بڑھکوں کا کچھ تو پاس رکھتے۔
دبئی میں مقیم ایان علی نے شہباز گِل کی آہ وبکا پراپنے قیدو بند کے احوال کے ساتھ ایک دلچسپ تحریر لکھی ہے اور ٹویٹس کی صورت میں سوشل میڈیا پر ڈالی ہے۔ ایان علی نے لکھا ہے کہ جب چند معلوم و نامعلوم کرداروں نے مخصوص ومذموم مقاصد کے لیے مجھے جیل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تو کیا خیال ہے، وہ ذہنی جسمانی و صنفی تشدد کرنے سے جھجکے ہوں گے؟ جی نہیں! وہ بالکل بھی نہیں جھجکے تھے۔ اڈیالہ جیل کے ڈیتھ سیل میں گزرے اُن چار ماہ کے ہرایک دِن اور ہر ایک رات تشدد کی نئی داستان رقم ہوتی تھی جسے سنانے کا حوصلہ مجھ میں بھی نہیں۔ مختصراً یہ کہ اکثر تشدد کرنے والے مرد اہلکاروں کو روکنے کے لیے خاتون سپریٹنڈنٹ کو کہنا پڑتا تھا کہ "سر اب بس کریں، یہ لڑکی ہے، آپ ایسا نہیں کر سکتے”۔ مگر وہ جو تب خود کو ریاستِ خداداد کا نا خُدا سمجھتے تھے بیچاری خاتون سپریٹنڈنٹ کی کیوں سنتے۔
اُنہیں تو صرف ایک ویڈیو بیان چاہیے تھا جسے حاصل کرنے کے لیے جو جو حربے آزمائے گئے، اُن میں سے چند عدالتی اور چند میڈیکل ریکارڈ پر اپنے نقوش چھوڑ گئے۔دوران حراست اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے ایان علی کہتی ہیں کہ جیل سے نکلنے کے بعد بھی میری نگرانی کا یہ عالم تھا کہ کلینک سے لے کر فاسٹ فوڈ چین پر آرڈر کیے گئے برگر کی خبر بھی ٹی وی پر نشر کی جاتی تھی۔ اِس عالم میں پاکستان میں اپنا میڈیکل ایگزامینیشن کروانا ناممکن تھا۔ مجھے اپنے پہلے میڈیکل ایگزامینیشن کا موقع بھی دو سال بعد دبئی میں ملا جب میری جان ای سی ایل سے چھوٹی۔ اِس طبی معائنے میں پتہ چلا کہ چار ماہ کے جسمانی و صنفی اور دو سال کے نفسیاتی تشدد نے مجھے دل کا مریض بنانے کے ساتھ ڈپریشن کا مرض بھی لگا دیا۔ ایان علی کہتی ہیں کہ اِن تحفوں کا کچھ اثر تو جیل کے ایام میں ہی واضح ہونا شروع ہو گیا تھا جب چار ماہ میں وزن 58 کلو سے 90 کلو ہو گیا۔ دوران قید میرا اتنی تیزی سے وزن بڑھنے کی وجہ ہارمونل ڈس آرڈر بنی جو مجھے ذہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ ابھی تو مریم نواز بھی سابق وزیر اعظم کی بیٹی ہونے کے باوجود جیل میں خود پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پہلو تہی کرتی ہیں کیونکہ معاشرہ شاید مکمل سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
شہباز گل کا ریمانڈ منسوخ کروانے کی کوشش کیسے ناکام ہوئی؟
ایان علی کا کہنا ہے کہ میرے بارے میں میڈیا میں عمومی تاثریہی دیا جاتا تھا کہ میں دورانِ قید عیاشی کی زندگی بسرکررہی ہوں اور مجھے بیش بہا سہولیات ملی ہوئی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں صرف 15 فٹ کے ایک ڈیتھ سیل میں قید تھی جس میں ایک چٹائی، ایک گھڑا پانی، ایک اوپن واش روم، اورایک صابن تھا جسے توڑ کر دیکھا جاتا کہ اس کے اندر کوئی سیٹلائٹ تو نہیں چھپایا گیا۔ اس کے علاوہ پنکھا تو مجھے جون جولائی میں مانگنے پر بھی نہ ملا، مگر چھپکلیاں اور لال بیگ بنا مانگے لا تعداد فراہم کیے گئے۔ ایان علی کے بقول، پنکھے کی کمی نیم گدلے پانی کے خود زمین پرچھڑکاو سے پوری ہوتی تھی۔ چھپکلیوں اورلال بیگوں سے دوستی ہو گئی تھی، رات کے کسی پہر اُن کی خود پر موجودگی بھی ناگوار نہیں گزرتی تھی۔ بلکہ مجھے ان کی کمپنی بھی محسوس ہوتی تھی۔ یہ تھی وہ عیاشی جسے بچشم خود دیکھنے کے لیے باوردی و بے وردی مرد اہلکا دن میں کئی بار خلافِ قانون میرے سیل کی سرپرائزڈ تلاشی لیتے تھےیہ خیال کیے بغیر کہ کوئی مقیدِ قفس کس عالم میں ہے۔
ایان علی کہتی ہیں کہ آپ سب کے دِل میں یہ سوال ہو گا پھر یہ حالات دورانِ پیشی میرے چہرے پر واضع کیوں نہ ہوتے تھے؟ اس کی وجہ بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے روزِ اول ہی یہ تہیہ کیا تھا کہ جو لوگ بہت گھمنڈ سے ایک سپر ماڈل کو 48 گھنٹوں میں توڑنے کا وعدہ کر رہے ہیں مجھے اُن کے گھمنڈ کو توڑنا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ اُن کا تشدد اگر مردانِ سیاست برداشت کر سکتے ہیں تو میرے جیسی عورت بھی برداشت کر سکتی ہیں۔ ویسے بھی تشدد کر کے مجھے میری کردار کشی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایان کہتی ہیں کہ میں شاید کم عمری کی وجہ سے خود کو دِل ہی دِل میں خواتین کا کوئی نمائندہ مان بیٹھے تھی اور یہ سمجھ رہی تھی کہ اگر میں ٹوٹی ہوئی دکھائی دی تو پاکستانی عورت ٹوٹی ہوئی دکھائی دے گی۔ بس اسی زعم میں ہر پیشی سے پہلے میں جون جولائی کی گرمی میں سکارف پہن کرعدالت جایا کرتی تھی تاکہ میرے چہرے اور گردن پر موجود تشدد کے نشانات چھپائے جا سکیں۔ اسکے علاوہ میں پیشی سے پہلے کسی ملزمہ کا دیا ہوا آئی لائنر، کسی کی دی ہوئی 100 روپے کی لپ سٹک اور کسی کی فئیر اینڈ لولی کریم استعمال کرتی تھی۔ ایا ن کے بقول اِن آلاتِ سے لیس ہو کر میں پدر شاہی معاشرے سے جنگ لڑنے عدالت روانہ ہو جایا کرتی تھی۔ تب میرا مقصد یہی ہوتا تھا کہ اپنے بد خواہوں کو تکلیف دوں اورنیک مندوں کو حوصلہ کہ لڑکی ابھی ٹوٹی نہیں۔ لیکن مجھے اِن آلاتِ حرب کے استعمال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے اظہار کی قیمت ہر پیشی سے واپسی پر چکانی پڑتی۔ مجھ پر ہونے والا تضحیک آمیز تشدد کچھ درجے مزید بڑھ جاتا اور مجھ پرلگی پابندیاں مزید سخت ہو جاتیں۔ جب میرے بھائی اور وکلاء تک سے ملاقاتیں بھی بند کر دی گئیں تو میری آنکھیں نم ضرور ہوئیں مگر میں اُف بھی نہیں کرتی تھی۔ مجھے ڈر لگتا تھا کہ کوئی میری روتے ہوئے ویڈیو نہ بنا لے اور یہ نہ کہتا پھرے کہ دیکھا نہ ٹوٹ گئی۔ بقول ایان علی، اِن حالات میں دوسری قیدی خواتین مجھے ایسے حوصلہ دیتی تھیں جیسے میں سچ میں اُن کی کوئی لیڈر ہوں۔ بعض اوقات تو حدود کراس ہوتی دیکھ کر وہ میرے لیے احتجاج بھی کر ڈالتی تھیں۔
اُن کا یہی عمل مجھے بھی لڑتے رہنے کا حوصلہ دیتاتھا۔ لیکن آج جب میں عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل کو روتے، گڑگڑاتے اور بیماری کی ایکٹنگ کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک سیاسی جماعت کے رکن ہیں۔ موصوف یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اُنکی بچگانہ حرکتوں سے اُنکے ہم جماعتی سیاستدانوں اور وزراء پر کیا تاثر پڑے گا۔ ابھی بھینسے نے صرف ڈکارنا شروع کیا ہے اور موصوف کا پتہ پانی ہو گیا ہے۔ موصوف تو چوکھٹ پر ہی لیٹ گئے کہ میں نے نہیں جانا پولیس کے ساتھ۔ ایان علی کہتی ہیں کہ ویسے اِس سے بھی بڑھ کر شرم کی بات کچھ اور ہے۔ عمران خان کا چیف آف سٹاف ہونے کے علاوہ شہباز گل مردانی برتری والے معاشرے میں پدر شاہی کےسفیر بھی تھے۔ اسیلئے مخالف خواتین کے متعلق گندی زبان اور رقییق جملے بازی کے اظہار میں ان کا اپنا مقام تھا۔ اب موصوف کی ہائے ہائے کار دیکھ کر پدر شاہی بھی سوچتی ہو گی کہ ہم نے کس کو اپنا برانڈ ایمبیسیڈر بنا لیا۔ ایان علی کہتی ہیں کہ میری شہباز گل سے گزارش ہے کہ اور کسی کے لیے نہیں تو اُن بیچارے مردوں کے لیے ہی کچھ حوصلہ دکھا دے جو انہیں اپنا بہادر جاٹ لیڈر سمجھتے تھے ۔ ایسی امید تو بر نہیں آتی پر کیا پتہ آپ کو کچھ شرم آئے۔ ایان علی کہتی ہیں کہ اِسی شرم کی منتظر ہم آپ کی اگلی پیشی دیکھیں گے۔ اللہ رب العزت پاکستان کو شہباز گل اور اس جیسوں کی سوچ کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔