ایئر فورس کے جہاز پر مریم کا دورہ جاپان، کروڑوں کا خرچہ کسے پڑا؟

وزیراعلی پنجاب مريم نواز نے اپنے حالیہ دورہ جاپان کے لیے پاکستان ایئر فورس کا ایک خصوصی چارٹرڈ جہاز استعمال کیا جس کے ایک ہفتے کے کرائے اور فیول اخراجات کا کروڑوں روپے کا بھاری بل پنجاب حکومت کی بجائے وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ ائیر فورس کا خصوصی طیارہ حاصل کرنے کے لیے مریم نواز شریف نے اپنے چچا وزیر اعظم شہباز شریف کی خدمات حاصل کی تھیں لہذا اس کا بل بھی اب وفاق کے کھاتے میں پڑ گیا ہے۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی سوشل میڈیا پر مریم نواز کے دورہ جاپان پر اٹھنے والے اخراجات سمیت دورے کے لیے استعمال ہونے والا پاکستان ایئرفورس کا خصوصی طیارہ زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین سوال کر رہے ہیں کہ کیا کبھی کسی اور صوبے کے وزیراعلی کو غیر ملکی دورہ کرنے کے لیے ایئر فورس کا جہاز نصیب ہوا ہے؟ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلی اور ان کے جہازی سائز کے وفد کے سفری اخراجات وفاق کے کھاتے میں کیوں ڈالے گئے ہیں؟ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے مريم نواز کے جاپان کے سرکاری دورے سے سیر و تفریح کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا ہے؟
سوشل میڈیا پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے مریم نواز نے ایک سرکاری وفد کے ہمراہ چین کا دورہ کیا تھا لیکن اس کا نتیجہ بھی سیر و تفریح کے سوا کچھ نہیں نکلا تھا۔ ادھر پنجاب حکومت کی ترجمان نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ وزیر اعلی مریم نواز کے دورے کے بعد پنجاب میں بھی جاپان جیسی ترقی اور صفائی کا ماڈل اپنانے کی کوشش کی جائے گی، ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے جاپان کے شہر یاکو ہاما کا خصوصا دورہ کیا جو اپنے بنیادی ڈھانچے، ٹراسپورٹ کے نظام، توانائی اور جدید ڈیزائن کے لیے جانا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ جاپانی شہری منصوبہ سازوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ انکا کہنا تھا کہ مريم نواز نے جاپان کی مختلف فیکٹریوں کا دورہ بھی کیا جہاں انھوں نے ویسٹ مینجمنٹ سسٹم اور ہیلتھ سسٹم سمجھا جسے اب پنجاب میں متعارف کروایا جائے گا۔
دوسری جانب بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ مریم نواز کے دورہ جاپان اور اس کی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر مہنگی ترین تشہیر کرنے پر کتنے کروڑ خرچے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز اپنے وفد کے ہمراہ جاپان کے تفریحی مقامات پر گروپ فوٹوز اور ویڈیوز بنواتی دکھائی دیں لہذا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب لوگ وہاں تفریح کرنے گے تھے۔
مريم نواز کے دورے پر اٹھنے والے اخراجات پر تنقید کرنے والوں کو ایکس پر جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے لکھا کہ ’ایک ہفتے کے دورہ جاپان کے دوران بہت مناسب اخراجات ہوئے جن کے عوض پنجاب میں بہت بڑی انویسٹمینٹ آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب میں جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے لیے بھاگ دوڑ اور دورے کرنا غلط ہے تو مریم یہ غلطی بار بار کریں گی۔
تاہم عظمی بخاری نے نہ تو یہ بتایا کہ دورے پر کتنے اخراجات آئے اور نہ ہی یہ بتایا کہ جاپان سے کس شعبے کے لیے کب اور کتنی مالیت کی انویسٹمنٹ آ رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عظمی بخاری کے دعووں کے برعکس جاپان کے دورے کے دوران حکومت پنجاب کے وفد نے نہ تو انویسٹمنٹ کا کوئی معاہدہ کیا اور نہ ہی ایسا کوئی حکومتی اعلان ہی سامنے آیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’بظاہر وزیر اعلی نے دورے کے نتیجے میں جاپان سے انویسٹمنٹ آنے کا دعوی کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد مریم نواز کتنے ارب روپے کی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ عموما ایسے دورے وزیراعلی نہیں بلکہ وزیر اعظم کرتے ہیں چونکہ مختلف ممالک کے مابین انویسٹمنٹ کے معاہدے وفاقی حکومتیں ہی کرتی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا ایسے دوروں کا مقصد مریم نواز کو وزیراعظم بننے کی ٹریننگ دینا ہے۔
مریم نواز کے دورہ جاپان کے حوالے سے ایک اور سوال یہ ہے کہ انہوں نے دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلی کی طرح سرکاری دورے کے لیے کمرشل فلائٹ استعمال کرنے کی بجائے ائیر فورس کا چارٹرڈ جہاز کیوں استعمال کیا۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقیدی انداز میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ طیارہ سفارش پر دیا گیا یا پھر اسے حکومت پنجاب نے پیسے دے کر چارٹرڈ کروایا؟ اس بارے میں وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان عمران اسلم کا کہنا تھا کہ ’پنجاب حکومت نے ایئر فورس کا جہاز پیسے دے کر بک کروایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل سفر اور کمرشل جہازروں کی خرابیوں کی وجہ سے دیر سویر ہونا سرکاری دوروں پر مناسب نہیں ہوتا۔ اسی لیے ایئر فورس کا چارٹرڈ طیارہ حاصل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر وزیر اعلیٰ وی آئی پی فلائٹس کا استعمال کرنے کی اختیار رکھتی ہیں۔
دوسری جانب بی بی سی سے نام نہ بتانے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اعلیٰ حکومتی افسر نے دعوی کیا کہ ’کیونکہ وفاق میں مریم کے چچا کی حکومت ہے اور ایئر فورس کا یہ جہاز بھی وزیر اعظم کے زیر استعمال ہوتا ہے لہذا جاپان کے دورے کے دوران اس جہاز کو استعمال کرنے کے اخراجات بھی وفاق کے بجٹ سے ہی ادا کیے جائیں گے۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’ایسے دورے کرنے میں جو آسانی مریم نواز کے لیے ہے وہ دوسرے صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے لیے نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وفاق میں ان کے چچا کی حکومت ہے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار ان کی چھوٹی بہن کے سسر ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ویسے بھی مریم نواز کی نظر صوبے کے بعد مرکز پر بھی ہے اس لیے یہ دورے ان کی تربیت کے حوالے سے بھی اہم ہیں۔‘
اس معاملے پر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ آپ جب ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دوسرے ممالک میں جا کر کہتے ہیں کہ ہمیں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک وزیر کی ضرورت تھی وہاں آپ 10 بندے لے کر آ گئے ہیں۔ ایک ملک جس کی معیشت کے حالات برے ہیں وہاں کے ایک صوبے کی وزیر اعلیٰ جب اس شاہانہ انداز میں دورے کریں گی تو اس سے دنیا کو یہی پیغام جاتا ہے کہ آپ یہ سب اخرجات اٹھا سکتے ہیں اور اپ کو سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں۔ اسلیے میرا خیال ہے کہ ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
مريم نواز کے جاپان کے دورے سے کتنی سرمایہ کاری آئے گی یا کون سا منصوبہ شروع ہو گا، اس حوالے سے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن اخبارات اور ٹیلی وزیژن پر ان کے دورہ جاپان کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شائع کیے گئے جن پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی۔ عموماً ایسے دوروں کی پریس ریلیز اور فوٹیج سرکاری طور پر بھیجی جاتی ہے جسے ٹی وی اور اخبارات میں جگہ مل جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ حکومت پنجاب نے پیسے خرچ کر کے یہ مصروفیات اشتہارات کے ذریعے عوام تک پہنچائیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی پرائیویٹ ٹی وی چینل پر جب ایک منٹ کا اشتہار چلتا ہے تو اس کے لیے تقریباً پانچ سے سات لاکھ روپے تک کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ کسی بھی بڑے اخبار کے فرنٹ پیج پر لگنے والا اشتہار چار گنا مہنگا ہوتا ہے۔ اس بارے عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ مہنگے ترین غیر ملکی سرکاری دوروں کی اندرون ملک تشہیر پر مزید پیسے خرچ کرنا ایک سنگین مذاق سے کم نہیں لہذا پنجاب میں اپوزیشن کو چاہیے کہ اس معاملے پر وزیراعلی سے جواب طلبی کرے۔
