سہیل وڑائچ نے مخالفین سے معافی مانگنے کے عوض کیا مانگ لیا؟

 

 

 

حال ہی میں اپنی ایک تحریر کی وجہ سے تنازع کا شکار ہونے والے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان سمیت اپنے تمام ناقدین سے معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی صحافت معتبر ہو گی تو اسکی ساکھ بھی برقرار رہے گی اور وہ ملک بھی معتبر رہے گا، لہذا میری معافی حاضر خدمت ہے، بس مجھے صحافت کرنے کے لیے تھوڑی سی سپیس چاہئے، دل بڑا کر کے وہ دیتے رہیں.

 

سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں کہ میرے آبائی علاقے میں ایک دلچسپ روایت مشہور ہے کہ جنگ عظیم کے دوران انگریز فوجی بھرتی کیلئے ایک تقریب منعقد کیا کرتے تھے۔ اس تقریب میں اکثر ایک بڑا انگریز افسر آ کر ترغیبی تقریر بھی کیا کرتا تھا۔ ایسی ہی ایک تقریب سرگودھا کے مشہور لک قبیلے میں منعقد ہوئی۔ یہ ایک قدیم مقامی قبیلہ ہے جس کے بڑوں میں دیسی دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ انگریز افسر نے تقریر میں کہا کہ آپکی محبوب ملکہ، جو ہر وقت آپکی فکر میں ہلکان رہتی ہے، اس کے خلاف ظالم ہٹلر نے جنگ چھیڑ دی ہے، ملکہ آپ کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر ہٹلر اسکے راستے میں رکاوٹ ہے۔ گورے افسر نے جذبات کی شدّت میں محبوب ملکہ کی مدد کیلئے لَک قبیلے کے نوجوانوں سے فوج میں بھرتی کی اپیل کی۔ اس موقع پر ایک عمر رسیدہ لَک نے کھڑے ہو کر انگریز افسر سے کہا کہ اب اگر بات ‘لَکوں’ پر آ گئی ہے تو میرا مشورہ ہے کہ ملکہ صاحبہ ہٹلر سے معافی مانگ کر صلح کر لیں کیونکہ ہم تو ہٹلر کو ہرا کر ملکہ کو نہیں بچا سکتے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ قصّہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بات مجھ حقیر پر آگئی ہے تو میں سب سے معافی کا خواستگار ہوں۔

 

سینیئر صحافی لکھتے ہیں کہ نہ تو میں سپرمین ہوں اور نہ ہی اس قابل کہ اقبال کا شاہین بنوں، میں تو وہی ذات کا ایک رپورٹر اور میاں محمد بخش کی زبان میں گلیوں کا رُوڑہ کوڑا ہوں۔ میں تو رومی اور بلھے شاہ کی پیروی میں اپنے من اور اپنی ہی انا سے لڑنے میں مصروف ہوں، میرا کلغی والوں سے کیا مقابلہ اور کیا تنازع؟ میں تو خود کو سیاہ کار اور دوسروں کو نیکو کار سمجھتا ہوں۔ کوئی دوست یا راہگیر ناراض ہو جائے تو میں خود اس سے معافی مانگ لیتا ہوں، میرے دوست گواہ ہیں کہ میں کردہ اور ناکردہ ہر طرح کی غلطیوں کی معافی مانگنے میں ذرا تامل نہیں کرتا۔

 

مجھے حالیہ واقعات پر افسوس ہے کہ ایک خبر نگار خود خبر بن گیا، ہمارا نہ یہ کام ہے اور نہ ہی ہمیں یہ زیب دیتا ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اہل سیاست اور اہل صحافت، ان سب کا رتبہ مجھ سے کہیں بڑھ کر اور عظیم تر ہے ،میں خود کو حقیر ترین سمجھتا ہوں اور اپنی انا کو مارنے کیلئے کوشاں ہوں، میرے جیسے بونے کا دیوتاؤں سے کیا مقابلہ۔ میں تو ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی ہوں، مجھ شُودر کا برہمنوں سے کیا تضاد؟ میں ہر ایک ناراض سے جھک کر معافی کا خواستگار ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ تما تر غلطیاں میری ہیں اور سب خوبیاں اُن میں ہیں۔

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لیڈیز فرسٹ کے مصداق میری پہلی معافی اداکارہ اور ہوسٹ فضہ علی سے بنتی ہے، میرا کیا مقام اور مرتبہ کہ میں ان کی کسی بات کو جھٹلائوں۔ موصوفہ نے مجھے باتھ روم دھونے والا کہا، میں سر تسلیم خم کرتا ہوں، میں تو خاکروب ہوں اور اس خطاب پر خوش ہوں۔ فضہ علی سے میری معافی اسلئے بنتی ہے کہ میری حمایت میں سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے انکی شان میں گستاخی کی لہذا میں ہاتھ جوڑ کر ان سے معذرت کا طلب گار ہوں۔

 

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اسی سلسلے میں عزیزم حماد اظہر نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں چونکہ معافی تلافی کی ہمیشہ حمایت کرتا ہوں تو آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے سیدھی طرح فوج سے معافی مانگ لوں، حماد کے والد میاں اظہر کھرے اور مشفق انسان تھے۔ وہ عمر میں مجھ سے کہیں چھوٹے ہیں اسلئے انکے صائب مشورے کو مانتے ہوئے میں حماد اظہر سے معافی کا طلب گار ہوں اور میں نے جو بھی غلطیاں کی ہیں ان سب کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں راضی کرنا چاہتا ہوں، چاہے مجھے ان کے سامنے جھکنا ہی پڑے۔ فیصل واوڈا کا میں ذاتی طور پر مداح ہوں۔ حالیہ کشیدگی کے دوران وہ بھی فرینڈلی فائرکی زد میں آگئے حالانکہ انہوں نے مجھے ہمیشہ عزت دی، اور ہمیشہ احترام سے میرا ذکر کیا۔ اختلاف تو ہوتا رہتا ہے مگر انسانیت اور دوستی زیادہ اہم ہوتی ہے، ان کو بھی مجھ سے شکایت پیدا ہوئی اس پر بھی معذرت کرتا ہوں۔

 

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف والے شہباز گل میرے دیرینہ مہربان ہیں، دو اڑھائی سال سے انہیں میری رائے سے اختلاف ہے اور وہ آئےروز مجھ پر تنقید کرتے رہتے ہیں، موصوف نے مجھ پر کئی جھوٹے الزامات بھی لگائے مگر آج سے میں اپنا دل صاف کرتے ہوئے انکا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے کبھی بھلایا نہیں اور ہمیشہ یاد رکھا۔ خدا انہیں ہمیشہ خوش رکھے۔ ان سے بھی معذرت اور معافی کا طلبگار یوں۔

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ میں تحریک انصاف کے ہر چھوٹے بڑے سے بھی، جو اکثر مجھ سے ناراض رہتے ہیں، معافی مانگتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف نہیں سمجھنا چاہئے، اختلاف کو نفرت کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے، اختلاف ختم ہو جائے تو معاشرے ڈوب جایا کرتے ہیں۔ مجھے پی ٹی آئی والوں کی رائے کا احترام ہے، وہ میری غلط آرا پر مجھے معاف فرما دیں۔ مقصد یہ ہے کہ اگر بات مجھ حقیر پر ہی آکر رک گئی ہے تو میں فوج سے ہاتھ جوڑ کر اور عمران خان کے پائوں پڑ کر معافی مانگنے کو تیار ہوں، میرا کسی سے کوئی ذاتی عناد نہیں اور نہ مجھے معافی مانگنے میں کوئی عار ہے۔

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں اور سب سے اہم معافی میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری صاحب سے مانگنا چاہتا ہوں کہ انہیں مجھ سے گلہ ہوا حالانکہ نہ میری ایسی کوئی نیت تھی اور نہ ہی خواہش تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والے صحافی بھائیوں میں سب کا مقام ان سے بڑا ہے۔ میں تو ان بڑے ناموں کی خاک کو بھی نہیں چھو سکتا۔ میں خود ذاتی طور پر ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اختلاف کرتے ہوئے مجھے یاد رکھا اور میرا رگڑا نکالا۔ وگرنہ وہ مجھے اہمیت ہی نہ دیتے تو میں ان کا کیا بگاڑ سکتا تھا، ان سب کا مجھ پر احسان ہے کہ انہوں نے ایسا کیا، وہ سب خوش رہیں۔

 

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آخر میں عرض ہے کہ ذاتی عناد کا احوال تو آپ نے سن لیا لیک  میں اپنی صحافتی انا کو تمام تر کوشش کے باوجود نہیں مار سکا۔ گزارش یہ ہے کہ مجھے میری صحافت کرنے دی جائے۔ اہل سیاست اور اہل صحافت میں سے جن لوگوں کو بھی مجھ سے اختلاف ہےوہ اپنی سیاست اور صحافت کریں۔ میں نے زندگی بھر کسی دوسرے کی صحافت یا خیالات سے اصولی اختلاف کے سوا ذاتی اختلاف نہیں کیا، میں نے زندگی بھر کسی کا سکینڈل نہیں بنایا، نہ کبھی کسی کا سکینڈل اچھالا۔ میں نے بغیر ثبوت کبھی کسی پر مالی بدعنوانی کا الزام بھی نہیں لگایا، میں نے کوشش کی ہے کہ ہر اختلاف کا شائستگی اور صحافتی دائرے کے اندر رہ کر جواب دیا جائے، اس کے باوجود انسان غلطیوں کا پتلا ہے، اگر کہیں غلطی ہو جائے تو اس پر میں ہمیشہ معافی اور معذرت کرنے کیلئے تیار رہتا ہوں۔ میں صرف بلھے شاہ کی بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ کسی انسان کا دل نہ توڑا جائے کہ رب دلوں ہی میں تو رہتا ہے۔

شاید فوجی ترجمان کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے: سہیل وڑائچ

سہیل وڑائچ اپنی تحریر کے آخر میں کہتے ہیں کہ سیاست اور اقتدار والوں کی جو مرضی ہے وہ کریں، لیکن اختلاف رائے اہل صحافت کا حق ہے، اگر اس سے بھی روکا جائے گا تو معاشرہ زوال پذیر ہو جائیگا۔ حالیہ جنگ میں بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انڈین صحافی یک رنگ اور مودی کی ہندوتوا سوچ کے حامی تھے، دوسری جانب پاکستان میں رنگا رنگی ہے اسلئے لوگوں نے پاکستانی صحافیوں کو زیادہ معتبر جانا۔ کسی بھی ملک کی صحافت معتبر ہو گی تو اسکی ساکھ بھی برقرار رہے گی اور وہ ملک بھی معتبر رہے گا، میری معافی حاضر خدمت ہے، بس مجھے صحافت کرنے کے لیے تھوڑی سی Space چاہئے، جناب دل بڑا کر کے وہ دیتے رہیں…..

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!