شاید فوجی ترجمان کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے: سہیل وڑائچ

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے فوجی ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کی اپنے حوالے سے حالیہ گفتگو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ذاتی حملوں کا جواب دینا اپنی روایت نہیں سمجھتے، لیکن آنے والا وقت اور لکھی جانے والی تاریخ خود ہر حقیقت کو واضح کر دیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی گفتگو میں جن نکات کی تردید کی ہے وہ تو میرے کالم میں تھے ہی نہیں، ہو سکتا ہے کہ انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔
’ایکس‘ پر اپنے ایک تفصیلی بیان میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما زلفی بخاری نے انکے حوالے سے فرمایا ہے کہ ‘سہیل وڑائچ تباہ ہو گیا’، اس کے علاوہ پی ٹی آئی ٹرولز اور ڈالرز کمانے والے وی لاگرز نے میرے خلاف ’ٹاؤٹ‘، ’فوج کا ایجنٹ‘ اور ’باتھ روم دھونے والا‘ جیسے الزامات کی مہم چلائی، تاہم میں نے صحافتی روایت کے مطابق پانچ روز تک اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی اپنی 40 سالہ صحافتی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو کوئی جواب دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ذاتی الزامات پر کسی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں، میں نے ہمیشہ لڑائی جھگڑوں اور تُو تُکار سے اجتناب کیا ہے اور اب بھی ایسا ہی کر رہا ہوں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری کے حوالے سے میرے دل میں ذاتی احترام موجود ہے۔ لیکن انہوں نے جن باتوں کی تردید کی، ان کا ذکر میرے کالم میں تھا ہی نہیں۔ احمد شریف چوہدری نے مستند طور پر کہا کہ فیلڈ مارشل نے کوئی انٹرویو نہیں دیا، کیونکہ میرے کالم میں کہیں بھی فیلڈ مارشل کے حوالے سے ’انٹرویو‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ میرا کالم ’پہلی ملاقات‘ کے عنوان سے تھا، نہ اس سے زیادہ نہ کم۔ برسلز میں ہونے والی تقریب میں 800 افراد موجود تھے، یہ ملاقات ون ٹو ون نہیں تھی اور دیگر مہمان بھی موجود تھے۔
انہوں نے وضاحت کیا کہ ان کے کالم میں کہیں بھی نہ تو 9 مئی 2023، نہ عمران خان اور نہ ہی کسی قسم کی معافی کا ذکر تھا۔ میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ سیاسی مصالحت کے حوالے سے فیلڈ مارشل نے قرآن کی آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا۔ اس حوالے سے ٹرولرز جو بھی تاثر لینا چاہیں، وہ ان کی مرضی ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ بطور ادنیٰ صحافتی کارکن میری رائے میں صحافت اور سیاست دونوں جمہوریت کی اولادیں ہیں، لیکن دونوں کے درمیان ایک دیوار بھی ہے جسے پھلانگے بغیر عبور نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاسی کارکنان نے صحافت کی دیوار پھلانگ لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل سے پہلی ملاقات کا احوال لکھنے پر تحریک انصاف کے شہباز گل اور سینیٹر فیصل واوڈا ایک بار پھر ایک پیج پر آگئے اور میرے کالم کو مسترد کیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے حماد اظہر اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی مجھے خوشامدی اور غیر ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ لہذا میں اقرار کرتا ہوں کہ میرے خلاف لگائے گئے تمام تر الزامات درست ہیں اور تینوں جماعتوں کا اکٹھ میری سیاہ کاری اور ان کی نیکوکاری کو ظاہر کرتا ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہاکہ میرا پہلا جرم جنرل عاصم منیر سے ملاقات پر کالم لکھنا نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی بار مجھے ایسے ہی الزامات کا سامنا رہا ہے۔ جنرل ضیاالحق کی جونیجو کے خلاف تقریر سے لے کر نواز شریف اور جنرل مشرف کے انٹرویوز اور جنرل باجوہ سے متعلق ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ لکھنے تک میرے کئی ’جرائم‘ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آخری انٹرویو بھی میں نے کیا تھا اور وہ بھی ایک جرم تھا۔
سینئیر صحافی نے کہا کہ برسلز کی ملاقات کے دوران قرآنی آیات اور شیطان و فرشتے کے حوالے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تقریر کا حصہ تھے، ان کی جو بھی تاویل کی جائے وہ لوگوں کی مرضی ہے۔ میری ذاتی خواہش ہمیشہ مصالحت اور ملکی استحکام کی رہی ہے حالانکہ موجودہ حالات میں اس کے امکانات کم ہیں۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگر کسی کو مجھ سے اختلاف ہے تو کیا مجھے اظہار رائے کا اختیار بھی نہیں؟ کیا یہ فاشسٹ رویہ نہیں کہ صحافیوں کو الزامات اور دھمکیوں سے دبایا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ واوڈا، حماد اظہر اور چند یوٹیوبر کسی سیاسی یا صحافتی نرسری سے نہیں پلے اور نہ ہی صحافتی اصولوں کے قائل ہیں۔ سینئیر اینکر پرسن کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی اصلیت سامنے آجائے گی، جھوٹے دعوے اور جعلی سچ بھی بے نقاب ہوں گی اور تاریخ کا فیصلہ صحافت ہی کے حق میں آئے گا۔
سہیل وڑائچ اور فوجی ترجمان کا تنازعہ کس تحریر پر شروع ہوا؟
واضح رہے کہ سہیل وڑائچ نے حال ہی میں برسلز میں ہونے والی ایک تقریب میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کی تھی۔ اس تقریب کے بعد سہیل وڑائچ نے ایک کالم لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔ لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس کالم پر رد عمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ آرمی چیف نے برسلز میں کسی بھی سیاسی موضوع پر گفتگو نہیں کی اور نہ ہی کسی معافی کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل نے نہ تو کسی صحافی سے کوئی گفتگو کی اور نہ ہی انٹرویو دیا۔ فوجی ترجمان کی گفتگو کے رد عمل میں اب سہیل وڑائچ نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے اپنے کالم میں جنرل عاصم منیر کے ساتھ کسی انٹرویو کا دعوی نہیں کیا۔
